اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں میں تیزی سے اضافہ

815

اسلحے کی عالمی تنظیم کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے اپنے جوہری ذخیرے کو 2019 میں 80 وار ہیڈز سے بڑھا کر 2020 میں 90 کردیا ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) نے گزشتہ روز اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کی 9 جوہری طاقتوں میں سے ایک اسرائیل نے اپنے وار ہیڈز سے بڑھا کر 2020 میں 90 کردیے ہیں ۔

واچ ڈاگ کی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اصل تعداد زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ اسرائیل اپنی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا ہے، اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے سائز اور اس کے جنگی صلاحیتوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال ہے۔

Nuclear weapons: Which countries have them and how many are there ...

اسرائیل جوہری ہتھیاروں کی دیرینہ پالیسی برقرار رکھے ہوئے ہے جبکہ اسرائیل تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی اس کی تردید کرتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

سیپری کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے 30 کے قریب کشش ثقل والے بم موجود ہیں  جو ایف 16 طیارے کے ذریعے فراہم کیے جاسکتے ہیں اور 50 کے قریب وار ہیڈ ہیں جو زمینی راستے سے بیلسٹک میزائل جیسے جیریکو3 کے ذریعے فراہم کیے جاسکتے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے بیلسٹک میزائل کی رینج تقریبا 5ہزار 500 کلومیٹر ہے۔

سیپری نے رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ عین ممکن ہےکہ اسرائیل کے کچھ ایف 15 طیارے بھی جوہری حملے میں  کردار ادا کرسکتے ہوں لیکن یہ غیر مصدقہ ہے۔اسرائیل اور امریکا دونوں کی سرکاری دستاویزات میں اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ صہیونی ریاست نے 1960 کے اوائل میں جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ بنانے کا کام شروع کیا تھا۔

قبل ازیں سال 2015 میں واشنگٹن میں قائم انسٹی ٹیوٹ برائے سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل نے کم از کم 115 جوہری وار ہیڈ تیار کیے ہیں۔

سیپری کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق برطانیہ ، چین ، ہندوستان اور پاکستان نے بھی گزشتہ سال میں اپنے جوہری ہتھیاروں میں 10 سے 30 وار ہیڈز میں اضافہ کیا ہے  جبکہ ایک محتاط اندازہ ہے کہ 9 جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس ، چین ، پاکستان ، ہندوستان ، اسرائیل اور شمالی کوریا کے پاس تقریبا 13 ہزار 400 جوہری ہتھیار موجود ہیں ۔