کورورنا ٹیسٹ مشکوک بھی خطرناک بھی !

1946

کورونا وائرس کے بارے میں ہر گھنٹے بعد انے والی مختلف اطلاعات نے مجھے ایک بار پھر اس موضوع پر لکھنے کو مجبور کردیا۔کورونا ، سچ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وائرس ہے مگر اس کا ٹیسٹ مرض کا علاج نہیں بلکہ اس میں اضافے کا سبب ہے۔ میرے صحافی دوست منیرعقیل انصاری کا چھوٹا بھائی تنویر عقیل انصاری بھی ٹیسٹ کے بعد اتنا شدید بیمار ہوگیا کہ اسے اسپتال میں داخل کرنا پڑگیا کیونکہ اس میں کورونا کی تمام علامات واضح ہوگئی تھیں جو پہلے غیر واضح تھیں، بہرحال الحمدللہ اب وہ اللہ کے حکم سے بہتر ہورہا ہے اور اللہ پاک سے یقین ہے کہ وہ جلد مکمل صحت یاب ہوجائے گا۔ مگر ٹیسٹ کے بارے میں بھی یقین کی حد تک شک ہوگیا ہے کہ یہ بیماری پیدا کرنے والا ٹیسٹ ہے نہ کہ بیماری سمجھ کر اس کا علاج کرنے والا ٹیسٹ۔ کیونکہ اس ٹیسٹ کے بعد تنویر سمیت متعدد کو سانس لینے میں تکلیف پیدا ہوئی۔
اسی طرح جنہوں نے یہ ٹیسٹ کرایا ان پر علامات واضح ہوگئیں اور جب یہ ٹیسٹ کا رزلٹ منفی آیا تو دوبارہ اور تیسری بار ٹیسٹ کرانے پر زور دے کرتیسرا ٹیسٹ کرایا گیا۔ کیوں؟ اس کا قابل قبول جواب کوئی بھی طبی ماہر نہیں دے سکا اور نہ دیتا ہے۔
کسی بھی مرض کو جاننے اور اس کے درست سمت علاج کے لیے ٹیسٹ کرایا جاتا ہے مگر عالمی طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے تو پھر یہ ٹیسٹ کیوں ضروری سمجھ کر کرایا جارہا ہے ؟ کیوں اس طرح کی غیر معمولی احتیاط کرائی جارہی ہے۔ حالانکہ یہ بات بھی طے ہوگئی ہے کہ یہ وائرس ہے اور یہ کسی دوسرے تک ہاتھ ملانے سے بھی منتقل نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ جان لیوا ہے۔ پھر یہ ہزاروں بلکہ دنیا بھر میں صرف چند ماہ میں لاکھوں افراد کی جانوں کو کیوں لے چکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وائرس سے اتنی ہلاکتیں نہیں ہورہیں جتنی بیان کی جارہی ہیں، پاکستان کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا جو کہ عالمی ادارہ صحت یعنی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے عمران خان کی حکومت کے لیے بطور تحفہ ملے ہیں نے چند روز قبل واضح کیا کہ کورورنا سے جاں بحق ہونے والے دیگر 74 فیصد وہ لوگ تھے جو دوسری بیماریوں کا بھی شکار تھے۔ مذکورہ مشیر کو تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ کورونا کے ساتھ دیگر امراض تو نامور اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی نظر میں غیر اہم ہوچکے ہیں اسی کیے ان پر توجہ ہی نہیں دی جاتی بلکہ صرف کورونا کورونا ہی کا راگ الاپا جانے لگا ہے۔ حکومت پاکستان اور عالمی ادارے اس وائرس کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کررہے ہیں وہ سو فیصد کورونا ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر ہیں جبکہ ٹیسٹ کے نتائج صرف 62 سے 65 فیصد مستند ہیں۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹیسٹ ہی مشکوک ہے۔ مرض میں اضافہ اور ہلاکت کے اعداد بھی ٹیسٹ کے بعد سامنے آرہے ہیں۔
کوروناوائرس کا کھیل اب ختم ہونے والا ہے اور اگر لوگ اللہ پر یقین کرتے ہوئے صرف بخار ، کھانسی ، نزلہ ، سینے میں درد یا سانس لینے میں تکلیف پر کسی بھی بڑے ڈاکٹر یا اسپتال سے رجوع کرنا چھوڑ کر دیسی اور گھریلو علاج پر توجہ دیں تو بہت تیزی سے یہ وائرس اور وباء ختم ہوجائے گی۔ اس کے لیے کم ازکم لوگوں کو کورونا کا ٹیسٹ کرانے سے گریز کرنا ہوگا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن( ڈبلیو ایچ او ) نہ زندگی دینے والا ادارہ ہے اور نا ہی نعوذ باللہ موت اس کی سازشوں سے آسکتی ہے۔ اگر یہ ادارہ لوگوں کی جانوں کے تحفظ کا ادارہ ہوتا تو اب تک سیگریٹ پینے سے ہر سال ہونے والی ساڑے آٹھ لاکھ اموات کو روک دیتا۔ جو سگریٹ کی فروخت بلکہ اسے تیار کرنے پر دنیا بھر میں پابندی لگاکر روکی جاسکتی ہے۔ مگر اس ادارے سے یہ قابل عمل کام نہیں ہوسکا۔اس نے دنیا بھر کے نظام کو کورونا کے خوف میں مبتلا کرکے ’’بند‘‘ تو کیا لیکن صرف سگریٹ کی تیاری اور فروخت کو خلاف قانون قرار دے کر یا دلواکر بند نہیں کراسکا۔ آخر کیوں ؟ سوچیے خوب دماغ لڑائیے ، خود بھی بیماریوں اور افواہوں سے محفوظ رہیے اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیے۔ جزاک اللہ خیرا ۔