امریکا میں کالوں کی تحریک حصہ چہارم و آخر

582

مسعود انور

امریکا کی ڈیموگرافی دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیاہ فام تو الگ رہے ، اگر سارے غیر سفید فام بھی ایک طرف ہوجائیں تو بھی وہ سفید فاموں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ امریکا کی مردم شماری کے محکمے کے مطابق امریکا میں خالص سفید فام آبادی 60.4 فیصد ہے اور اگر ان میں ہسپانوی اور اطالوی نژاد بھی شامل کرلیے جائیں تو یہ آبادی بڑھ 76.5 فیصد ہوجاتی ہے ۔ سیاہ فام یا افریقی امریکی کل آبادی کا 13.4 فیصد اور سارے ایشیائی مل کر مجموعی امریکی آبادی کا 5.9 فیصد بنتے ہیں ۔ یہ سفید فام نہ صرف اکثریت میں ہیں بلکہ ہر لحاظ سے مستحکم پوزیشن میں بھی ہیں ۔

Trump Declares War On America': Europe Reacts As Black Lives ...امریکا میں اس سے قبل بھی کئی تحاریک چلتی رہی ہیں اور انہوں نے خاصا طوفان بھی برپا کیا مگر ایک بھی تحریک نتیجہ خیز نہیں رہی ۔ 2011 میں occupied wall street (OWS) نامی تحریک نے خاصی شہرت حاصل کی ۔ OWS کے احتجاجی مظاہرین نے نیویارک اسٹاک ایکسچینج سے متصل زکوٹی پارک میں ڈیرے ڈال دیے تھے ۔ مذکورہ تحریک اور سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی حالیہ تحریک میں خاصی چیزیں مشترک ہیں ۔ دونوں ہی تحاریک پورے امریکا کے ساتھ یورپی ممالک میں مقبولیت حاصل کرنے لگی تھیں اور دیگر شہروں میں بھی اسی طرز کے مظاہرے شروع ہوگئے تھے ۔ OWS اور حالیہ black lives matter کی تحاریک کے اسپانسر ایک ہی ہیں ۔ حالیہ تحریک کی طرح OWS میں بھی ڈیموکریٹس انتہائی متحرک تھے ۔ جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد بھی ڈیموکریٹس ہی متحرک ہیں ۔ OWS کے مظاہرین کے منتظمین میں بایاں بازو شامل تھا ۔ جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہرین کو منظم کرنے میں بھی بایاں گروپ انتہائی متحرک ہے ، یہی وجہ ہے کہ کہا گیا کہ اس ساری گڑ بڑ کے پیچھے اینٹی فا ہے ۔ یہ اینٹی فا ہی ہے جس نے امریکا و کینیڈا سے باہر نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا اور یورپ میں بھرپور احتجاجی مظاہرے منظم کیے اور اب مظاہروں کی یہ لہر چوتھے براعظم افریقا تک پہنچ گئی ہے ۔ یہ ڈیموکریٹس ہی ہیں جن کی مدد کی بناء پر احتجاجی مظاہرین واشنگٹن اسٹیٹ کے شہر سیاٹل میں کیپٹل ہل کے علاقے میں علامتی طور پر ایک خودمختارعلاقے کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی تحاریک کو منظم کرنے کے لیے خزانوں کے منہ کھولنے والے وہی لوگ ہیں ، جن کے مفادات دیکھنے میں ان تحاریک کی ضد ہیں یا پھر یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان تحاریک کی کامیابی کی صورت میں ان تحاریک کو فنڈ کرنے والے افراد کے مفادات ہی کو نقصان پہنچے گا ۔ اس صورتحال کو دیکھنے کے بعد پھر سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ پھر کیوں ان تحاریک کولامحدود فنڈز فراہم کررہے ہیں۔

اس سوال کا جواب ہم OWS کے نتائج سے باآسانی بوجھ سکتے ہیں ۔ OWS کی تحریک تین ماہ تو پورے زور و شور سے چلی ، امریکا سمیت پوری دنیا کے مین اسٹریم میڈیا کی روز کی ہیڈ لائنز میں اس کا تذکرہ ہوتا تھا ۔ پھر بتدریج یہ احتجاجی مظاہرہ سکڑنا شروع ہوا اور پھر خاموشی سے اچانک یہ مظاہرین اور ان کے منتظمین کہیں غائب ہوگئے ۔ وال اسٹریٹ کے خلا ف مظاہرہ کرنے والوں کے نعرے انتہائی خوش کن تھے جنہوں نے امریکی عوام کی اکثریت کے دلوں کو چھو لیا تھا ۔ سرمایہ دارانہ جبر ، وال اسٹریٹ کے جرائم ، سماجی بے انصافی ، پسے ہوئے طبقات کی ہمیشہ کے لیے یکجہتی ، بینکوں کی ہیرا پھیری کے خلاف جنگ جیسے نعرے امریکا میں بینکوں کے قرضوں میں جکڑے ہر متاثر کے دل کی آواز تھے ۔ سیاہ فاموں کے حقوق کی حالیہ تحریک کے برخلاف امریکی عوام کی اکثریت OWS کے احتجاج میں شریک تھی ۔ اس کے باوجود مذکورہ تحریک دیکھنے میں کسی منطقی نتیجے پر پہنچے بغیر ہوا میں تحلیل ہوگئی ۔

وال اسٹریٹ کی تحریک کا صرف اور صرف ایک نتیجہ نکلا ، وہ یہ کہ اس کے نتیجے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی اور ایک انہونی کے طور پر ٹرمپ منتخب کرلیے گئے ۔ اب پھر نومبر میں امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہیں ۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے اور قرض میں زبردست اضافہ ہو ا ہے ۔ ٹرمپ کی عالمی پالیسیوں پر بھی زبردست تنقید جاری ہے ، ایسے میں ٹرمپ کے لیے حالات انتہائی خطرناک ہیں ۔ سیاہ فاموں کی تحریک کے منطقی ردعمل کے طور پر سفید فام افراد ایک مخالف چھتری تلے جمع ہوگئے ہیں جو ٹرمپ کے سیاہ فاموں کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر ان کے ساتھ ہیں ۔ چونکہ امریکا میں سفید فاموں کی اکثریت ہے اس لیے ریپبلیکن کو ان کی ناکامیوں کے باوجود زبردست کامیابی سے کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔

br /><b>Warning</b>: Cannot Modify Header Information Headers ...اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹ تو ریپبلیکنز کے مخالف ہیں تو وہ ریپبلیکنز کی عملی مدد کیوں کررہے ہیں ۔ اس کا جواب سوال جتنا ہی سادہ ہے ۔ جتنے بھی فنڈز فراہم کرنے والے ادارے ہیں ، وہ سب کے سب ان لوگوں کے ہیں جو نیو ورلڈآرڈر کے لیے عملی طور پر کام کر رہے ہیں ۔ یہ مختلف پارٹیوں میں تو ہیں جہاں پر ان کا اسکرپٹ الگ الگ ہے مگر انہیں یہ اسکرپٹ ایک ہی ڈائریکٹر کی طرف سے دیا گیا ہے ۔ اس لیے انہوں نے پہلے بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کیا اور اب بھی یہ وہی سب کچھ کررہے ہیں ۔ اس کے بعد آخری سوال یہی بچتا ہے کہ آخر ٹرمپ ہی کیوں ۔ 2020 کی موجودہ صورتحال دیکھیں ، کورونا کی لانچنگ کے بعد دنیا کو ایک نئی دنیا میں transform کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔ اس میں ایک سال کا عرصہ مزید درکار ہے ۔ اس وقت کھلاڑیوں کی تبدیلی دنیا کی اس تبدیلی کے عمل کو متاثر کرے گی ۔ سمجھنے کی بات ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کے لیے آئندہ دس برس انتہائی اہم ہیں ۔ آئندہ پانچ برسوں میں ہر فرد کو ریاست کا غلام بنایا جاچکا ہوگا ، سارے وسائل ریاست کے قبضے میں ہوں گے ۔ زر اور زمین سب کچھ ریاست کا ہوگا ۔ کرنسی کی صورتحال تبدیل ہوچکی ہوگی ، کسی شخص کوخود سے زرعی پیداوار پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔ جب تک transformation کا یہ عمل مکمل نہیں ہوجاتا ، کوئی کھلاڑی تبدیل نہیں کیا جائے گا تاہم یہ سارا کھیل اس طرح سے کھیلا جائے گا کہ قدرتی ہی لگے ۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔

hellomasood@gmail.com

www.masoodanwar.wordpress.com