کورونا کو کیسے روکیں!

574

کہا جارہا ہے کہ کورونا ہماری زندگی میں داخل ہوگیا ہے اب ہمیں ایک مدت تک اس کے ساتھ گزارہ کرنا ہوگا۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ کورونا سے کسی کو استثنا نہیں۔ ہر شخص ایک دفعہ ضرور کورونا سے متاثر ہوگا لیکن ضروری نہیں کہ اس کا اثر اس کے لیے جان لیوا ثابت ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم فلو، کھانسی، نمونیا اور ہیٹ اسٹروک سے متاثر ہوتے ہیں اور ضروری علاج معالجے کے بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ البتہ ہم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن پر کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا اور وہ ان بیماریوں میں سے کسی ایک میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ تپ دق ایک زمانے میں بہت موذی بیماری تصور ہوتی تھی لیکن پھر اس کا موثر علاج دریافت ہونے کے بعد اس پر قابو پالیا گیا۔ کینسر عصر حاضر میں بہت خطرناک بیماری ہے جو بہت سی انسانی زندگیوں کو نگل رہی ہے، تاہم اس کا کارگر علاج بھی موجود ہے اور بہت سے مریض شفایاب بھی ہورہے ہیں۔ بالکل یہی معاملہ کورونا کا بھی ہے۔ کورونا کے بہت سے کیسز سامنے آرہے ہیں لیکن ان میں صحت یابی کی شرح بھی حوصلہ افزا ہے۔ البتہ مرنے والوں کی تعداد بھی تشویشناک ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ماہرین کے مطابق اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ مرنے والے کا داخلی مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے وہ کورونا کا مقابلہ نہیں کرپاتا اور وائرس اس پر غالب آکر موت سے ہمکنار کردیتا ہے۔
اس اصول کا اطلاق صرف کورونا پر نہیں ہوتا بلکہ تمام بیماریاں اس اصول کے تحت موثر یا غیر موثر ہوتی ہیں۔ کورونا چوں کہ اس وقت عالمی وبا کا درجہ رکھتا ہے اس لیے اس کا چرچا بھی عالمی سطح پر ہورہا ہے اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں کو بھی میڈیا میں نمایاں جگہ دی جارہی ہے۔ بلاشبہ یہ ہلاکتیں تشویشناک ہیں۔ پاکستان جو ایک ترقی پزیر ملک ہے، ان ہلاکتوں کی وجہ سے شدید تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا پھیل کیسے رہا ہے۔ کیا کورونا کے مریض یہ وبا پھیلارہے ہیں؟ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کورونا کے مریض سے تو لوگ خودبخود دوری اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر وہ اسپتال میں داخل ہوگیا ہے تو اسپتال کا عملہ اس کے مرض کو پھیلنے سے روکنے کے لیے تمام ضروری تدابیر اختیار کرتا ہے۔ اگر مریض گھر میں ہے تو اسے تنہائی میں رکھا جاتا ہے اور گھر والے اس سے احتیاط برتتے ہیں اور خود مریض بھی کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا۔ اس کی تمام ضرورتیں سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے پوری کی جاتی ہیں۔ پھر یہ وبا کیسے پھیل رہی ہے؟ طبی ماہرین کے مطابق اس کا جواب یہ ہے کہ کورونا ان لوگوں کے ذریعے پھیل رہا ہے جن کے اندر کورونا تو داخل ہوگیا ہے لیکن ان کے مضبوط داخلی دفاعی نظام کے سبب کورونا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا وہ بدستور صحت مند ہیں ان پر کورونا کے کوئی اثرات نہیں ہیں۔ البتہ جن لوگوں سے وہ ملتے جلتے ہیں ان میں کورونا پھیلتا چلا جاتا ہے۔ جس کی اصطلاحاً میں یہ لوگ کورونا کیرئر (کورونا بردار) کہلاتے ہیں۔ کون کورونا کیرئر ہے اور کون نہیں۔ ٹیسٹ کے بغیر اس کا پتا لگانا بہت مشکل ہے۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ میل ملاقات میں مصافحہ کرنے اور بغل گیر ہونے سے گریز کیا جائے، ماسک کو اپنی شخصیت کا حصہ بنالیا جائے، خاص طور پر رش والی جگہ میں ماسک کے بغیر ہرگز نہ جایا جائے، وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا مسجدوں سے نہیں پھیلا۔ حکومت کی طرف سے یہ وضاحت قابل اطمینان ہے ورنہ اس سے پہلے سارا زور ہی اس بات پر تھا کہ لوگ مسجدوں میں نہ جانے پائیں۔ نماز جمعہ کے اجتماعات کو روکنے کے لیے باقاعدہ کرفیو لگایا جاتا تھا لیکن وزیراعظم کے اس بیان کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ مسجدیں کورونا سے محفوظ ہوگئی ہیں۔ نمازیوں کو مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے وہ تمام احتیاطی تدابیر برتنی چاہییں جو ایس او پیز میں دی گئی ہیں۔ ان احتیاطی تدابیر میں ماسک کا استعمال بھی شامل ہے اور نمازیوں کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ماسک لگانا چاہیے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آدمی اپنا داخلی مدافعتی نظام کیسے مضبوط بنائے۔ دراصل یہی وہ نظام ہے جو قدرت نے بیماریوں کے خلاف انسانی جسم میں قائم کیا ہے۔ بیماری جب انسانی جسم پر حملہ آور ہوتی ہے تو یہ نظام فوراً حرکت میں آجاتا ہے اور بیماری کو مار بھگاتا ہے اگر یہ نظام کمزور ہے اور حملہ آور کے خلاف موثر کارروائی نہیں کرپاتا تو حملہ آور بیماری غالب آجاتی ہے اور آدمی بیمار پڑ جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں داخلی مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بہت سے مشورے سامنے آئے ہیں۔ علاج بالغذا کے ماہر ایک ڈاکٹر کا انٹرویو ان دنوں وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ ہم اپنے اس نظام کو کیسے مضبوط بناسکتے ہیں۔ ان کی چند موٹی موٹی باتیں یہ ہیں۔ کھانے میں دہی کا استعمال کریں، موسمی پھل بکثرت کھائیں، ادرک اور لہسن کا قہوہ دن میں ایک دو بار پئیں، ڈرائی فروٹ لیں خواہ مونگ پھلی کے چند دانے ہی کیوں نہ ہوں اور آٹھ گھنٹے کی پُرسکون نیند سوئیں۔ نیند پوری نہ ہونے سے جسم کا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے اور جسم کا دفاع کمزور پڑ جاتا ہے۔
بیماری اور ہر قسم کی مصیبت سے نبرد آزما ہونے کے لیے اہل دین جو نسخہ بتاتے ہیں اس پر عملدرآمد بھی نہایت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں، نماز میں خشوع و خضوع کا اہتمام کریں، استغفار کو اپنا وظیفہ بنالیں، مسنون دعائیں پڑھتے رہیں، اللہ پر توکل کریں اور اس سے عافیت مانگتے رہیں، زندگی کا یہ شعار کورونا کیا ہر مصیبت میں آپ کے لیے کارگر ثابت ہوگا۔ آخری بات یہ کہ ٹینشن فری رہیں جب آپ نے تمام احتیاطی تدابیر کے بعد معاملہ اللہ کے سپرد کردیا تو ٹینشن کیسی؟