فلسفۂ موت وحیات (حصہ اول)

1307

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اللہ) وہ ہے جس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے بہترین کون ہے، (الملک: 2)‘‘۔ اس پر فلسفیانہ اعتبار سے ایک اعتراض وارد ہوا کہ خَلق وایجاد کسی چیز کو وجود عطا کرنے کا نام ہے اور موت تو ایک عدمی چیز ہے، اُس پر خَلق کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ موت سے مراد پہلی بار پیدائش سے پہلے کا عدم ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱) ’’بے شک انسان پر ایک ایسا وقت آچکا ہے کہ کہیں اس کا نام ونشان نہ تھا، (الدہر: 1)‘‘۔ (۲) ’’تم اللہ کا انکار کیونکر کرتے ہو، حالانکہ تم مردہ تھے تو اُس نے تمہیں زندہ کیا، پھر تمہیں مار ڈالے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اُسی کی طرف لوٹائے جائو گے، (البقرہ: 28)‘‘۔ اس آیت میں انسان کی تخلیق سے پہلے کے عدم کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پھر قرآنِ کریم نے یہ اصول بتایا: (۱) ’’زمین پر جو کوئی بھی ہے، فنا ہونے والا ہے اور آپ کے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات ہی ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، (الرحمن: 26-27)‘‘، (۲): ’’ہر جاندار موت کو چکھنے والا ہے، پھر تم ہماری طرف ہی لوٹائے جائو گے، (العنکبوت: 57)‘‘۔ الغرض موت ایک حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو، (اپنے مقررہ وقت پر) موت تم کو آپہنچے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو، (النساء: 78)‘‘۔ (۲): ’’آپ کہہ دیجیے: بے شک جس موت سے تم بھاگ رہے ہو، وہ یقینا تمہیں ملنے والی ہے، پھر تم اُس کی طرف لوٹائے جائو گے جو ہر ظاہر اور باطن کو جاننے والا ہے، پس وہ تمہیں بتادے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے، (الجمعہ: 8)‘‘۔ پس تخلیقِ کائنات کا مدار ومحور انسان کی ذات ہے۔ جب قیامت قائم ہوجائے گی اور محشر میں سب کو جمع کردیا جائے گا تو اس کے بعد حیاتِ دوام ہوگی، رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’سرمئی مینڈھے کی شکل میں موت کو لایا جائے گا، پس ایک منادی ندا کرے گا: اے اہلِ جنت! تو وہ گردن اٹھائیں گے اور دیکھیں گے، وہ کہے گا: کیا تم اس کو پہچانتے ہو، وہ کہیں گے: ہاں! یہ موت ہے اور وہ سب اس کو دیکھ چکے ہوں گے، پھر پکارے گا: اے اہلِ دوزخ! پھر وہ گردن اٹھائیں گے اور دیکھیں گے، وہ کہے گا: کیا تم اس کو پہچانتے ہو، وہ کہیں گے: ہاں! یہ موت ہے اور ان سب نے اس کو دیکھ لیا ہوگا، پھر اس مینڈھے کو ذبح کردیا جائے گا، پھر منادی کہے گا: اے اہلِ جنت! اب دوام ہے، اب موت نہیں آئے گی اور اے اہلِ دوزخ! اب دوام ہے، اب موت نہیں آئے گی، پھر آپ ؐ نے یہ آیت پڑھی: ترجمہ: ’’اور آپ انہیں حسرت والے دن سے ڈرائیے، جب فیصلہ ہوچکا ہوگا اور وہ غفلت میں ہیں، (مریم: 39)‘‘۔ اور یہ لوگ دنیا کی غفلت میں ہوں گے اور ایمان نہیں لائیں گے، (بخاری)‘‘۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ موت کو مینڈھے کی شکل میں متشکل فرمادے اور پھر اُسے ذبح کرکے ہمیشہ کے لیے موت کا خاتمہ فرمادے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایک تمثیل ہو اور یہ بتانا مقصود ہو کہ اب کسی کے لیے فنا نہیں ہے، بلکہ سب کے لیے حیات ِدوام ہے، چنانچہ علامہ احمد بن محمد شہاب الدین قسطلانی لکھتے ہیں:
’’موت کو مینڈھے کی شکل میں ذبح کرنا ایک تمثیل ہے تاکہ ایک معنوی اور معقول امر کو محسوس کی شکل میں متشکل کر کے ذہنوں کے لیے قابلِ فہم بنایا جائے، (ارشاد الساری)‘‘، علامہ اقبال نے کہا ہے:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں:
’’پکارا جائے گا: اے اہلِ جنت! وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں انہیں اُس مقام سے نکال نہ دیا جائے، پھر پکارا جائے گا: اے اہلِ جہنم! وہ خوشی خوشی جھانکیں گے کہ شاید انہیں جہنم سے نکال دیا جائے اور آخر میں فریقین سے کہا جائے گا: اب تم جس حال میں ہو، اُسے دوام ہے، اب کبھی موت نہیں ہے، (فتح الباری)‘‘۔
ملحدین کے نزدیک کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے، یہ ازخود وجود میں آئی، مادّہ یعنی کائنات کا جوہرِ تخلیق مختلف ارتقائی مراحل سے گزرا ہے، جبکہ منکرینِ آخرت موت کو فنائے کلی سمجھتے ہیں اور ’’حیات بعد الموت‘‘ اور جزا وسزا کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔ الحاد وانحراف کا یہ عقیدہ نیا نہیں ہے، بلکہ نزولِ قرآن کے وقت بھی ان نظریات کے حاملین موجود تھے، وہ بھی حیات بعدالموت پر عقلی اعتراضات وارد کرتے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۱) ’’(کفار کہتے ہیں:) ہماری صرف یہی پہلی موت ہے اور ہم (موت کے بعد زندہ کر کے) اٹھائے نہیں جائیں گے، (الدخان: 35)‘‘، (۲) ’’اور انہوں نے کہا: ہماری تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے، ہم (اسی دنیا میں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہلاک کرتا ہے اور (حقیقت یہ ہے کہ) انہیں اس کا کچھ علم نہیں، یہ محض ان کے ظنّ وگمان ہیں، (الجاثیہ: 24)‘‘۔ (۳) ’’(منکرینِ آخرت کہتے ہیں:) جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیوں میں تبدیل ہوجائیں گے تو کیا ہم اور ہمارے پہلے آباء واَجداد ضرور اٹھائے جائیں گے، آپ کہیے: ہاں! اور تمہیں ذلیل وخوار کر کے (اٹھایا جائے گا)، (صافات: 17-18)‘‘۔ (۴) ’’وہ ہمارے لیے مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا: ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا، آپ کہیے: انہیں وہی (خالق) زندہ کرے گا، جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کی پیدائش کو خوب جاننے والا ہے، (یس: 78-79)‘‘۔ (۵) ’’اور انہوں نے کہا: جب ہم ہڈیاں ہوجائیں گے اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو پھر کیا ہم کو از سرِ نو پیدا کر کے اٹھایا جائے گا، آپ کہیے: (اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا) تم پتھر بن جائو یا لوہا یا کوئی اور مخلوق جو تمہارے خیال میں بہت سخت ہو، تو عن قریب وہ کہیں گے: ہم کو دوبارہ کون پیدا کرے گا، آپ کہیے: وہی جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا، اس پر وہ آپ کی طرف (استہزاء کے طور پر) سر ہلائیں گے اور کہیں گے: تو یہ کب ہوگا، آپ کہیے: کیا عجب کہ وہ وقت قریب آپہنچا ہو، (بنی اسرائیل: 49-51)‘‘۔
آپ نے غور فرمایا: نزولِ قرآن کے وقت بھی ملحدین اور منکرینِ آخرت موجود تھے، ان کے عقلی خدشات اور اعتراضات وہی تھے، جو آج کے ترقی یافتہ انسان کے ہیں، وہ بھی حیات بعدالموت کے منکر تھے اور آج کے ملحدین بھی وہیں کھڑے ہیں، فرق یہ ہے کہ وہ موت کو ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر قبول کرتے تھے، حیاتِ بعد الموت، جزا وسزا اور حیاتِ دوام کا کوئی تصور ان کے ذہن میں نہیں تھا، مگر آج سائنسی ترقی نے انسان کے ذہن میں یہ خواہش پیدا کردی ہے کہ موت پر قابو پایا جاسکتا ہے، مشہور یہودی مُلحد حراری اپنی تصنیف ’’ہوموڈیوز‘‘ میں لکھتا ہے:
’’موت خدا کے حکم سے نہیں آتی، بلکہ آدمی اس لیے مرجاتا ہے کہ اس کے جسم کا کوئی بھی اہم جزو کام کرنا بند کردیتا ہے‘‘، اس نے لکھا: ’’سائنس اتنی ترقی کر رہی ہے، موت اب ایک تکنیکی مسئلہ ہے ‘‘، یعنی انسان ایک نہ ایک دن موت پر قابو پالے گا اور دائمی زندگی سے لطف اندوز ہوگا۔ اس نے لکھا: ’’زندگی کے ساتھ ہمارا یہ نظریاتی میثاق ہے کہ ہم موت کو قبول نہیں کرسکتے، چنانچہ ہم موت پر قابو پانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ موت کو قابلِ تسخیر اور حیاتِ ابدی کو قابلِ حصول سمجھنے والا حراری اب اپنے عجز کا اعتراف کرتا ہے اور لکھتا ہے: ’’مگر یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہم بھلے کتنی ہی ترقی کرجائیں، کوئی نہ کوئی غیر متوقع چیلنج یا وبا ہمیں ضرور آزمائش میں ڈالتے رہیں گے، لہٰذا ہمیں ناقابلِ تسخیر ہونے کے اندھے زعم سے خود کو بچانا ہوگا، جیسے سیزر کے پیچھے پیچھے ہمیشہ ایک شخص چلتا تھا، جس کا کام ہی یہ تھا کہ جہاں سیزر خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے لگے، یہ شخص اس کے کان میں کہے: سیزر! تم جتنے بھی طاقتور سہی، مگر لافانی نہیں ہو‘‘۔
ان اقتباسات کے لیے میں جنابِ شاہنواز فاروقی اور جنابِ وسعت اللہ خان کا شکر گزار ہوں۔ ہوموڈیوز میں حراری کی خوش فہمی اور تعلّی کی انتہا اور تازہ ترین تحریر میں اُس کے عَجز کا اعتراف دو انتہائوں کی نشاندہی کرتا ہے کہ محض قدرت کی ایک حقیر سی مخلوق کورونا وائرس نے اُسے ثریا کی بلندیوں سے زمین پر لاکر پٹخ دیا۔ ایک طرف یہ ملحدین اور مادّہ پرست سائنس کو ایک یقینی علم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُسے ایک مذہب کا درجہ دے دیتے ہیں، کیونکہ معلومات کی قطعیت کا دعویٰ صرف الٰہی دین نے کیا ہے، سائنس کے مشاہدات، نظریات اور تجربات بدلتے رہے ہیں، بس قطعی علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور عالَمِ انسانیت کے پاس وہی علم قطعی ہے جو وحی کے ذریعے انبیائے کرامؑ کے توسط سے انسان کو عطا کیا گیا ہے۔
شاہنواز فاروقی لکھتے ہیں:
’’جیسا کہ ظاہر ہے حراری کی ان دونوں تحریروں کے اقتباسات ایک دوسرے کی تردید اور تکذیب کرتے نظر آرہے ہیں۔ 2017ء میں حراری صاحب کہہ رہے تھے کہ سائنس کے لیے موت صرف ایک تکنیکی مسئلہ رہ گیا ہے مگر اب موت تو کیا سائنس کورونا پر بھی قابو پانے کے لائق نظر نہیں آرہی۔ 2017ء میں لکھی گئی کتاب ہومو ڈیوز میں سائنس کے لیے موت سمیت سب کچھ قابل تسخیر تھا، مگر اب حراری کہہ رہے ہیں کہ انسان قابلِ تسخیر ہے، اسے موت کیا ایک وبا بھی تسخیر کرسکتی ہے۔ چنانچہ ہمیں انسان کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے زعم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ آنکھ سے نظر نہ آنے والے ایک وائرس نے سائنس کی عظمت کے غبارے کی ساری ہوا نکال دی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کاش نوح حراری نے اپنی تصنیف ہوموڈیوز میں بھی انکسار اور فروتنی اختیار کی ہوتی اور کہا ہوتا کہ سائنس کی فتوحات غیر معمولی سہی مگر وہ بہرحال موت پر قابو پانے کے قابل نہیں، لیکن ہوموڈیوز لکھتے وقت حراری سائنس سے وابستہ جھوٹی عظمت کے گھوڑے پر سوار تھے اور سائنس کو مذہب بنائے ہوئے تھے۔ اتفاق سے صرف تین سال میں ان کا آسمان پر تھوکا ہوا ان کی طرف واپس لوٹ آیا ہے‘‘۔
(جاری ہے)