ارطغرل نے کون سی جوت جگا دی

1261

ایک ایسا ڈراما جو ترکی سے برامد ہوا اور پوری دنیا پر چھا گیا اب تک کی معلومات کے مطابق دنیا کا مقبول ترین ڈراما ارطغرل ہے جو مسلم اور غیر مسلم کی تمیز کیے بغیر سارے عالم میں عوام میں بے حد مقبول ہو رہا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر غیر مسلموں سے زیادہ مسلمان حکمران زیادہ متفکر ہیں اور ان کو ایک انجانا خوف ہے جو چین سے نہیں بیٹھنے دے رہا، وہ خود تو کھل کر سامنے نہیں آ سکتے لیکن اپنے زر خرید اور ڈنڈے کے زور پر صحافیوں، تجزیہ نگاروں، دانشوروں کو آگے لگایا ہوا ہے کہ اس ڈرامے کو روکنے یا کم از کم اس کی مقبولیت میں کمی کے جتن کرو اور وہ سب اس حکم کی فرماں برداری میں لگ گئے ہیں اور ہر روز ایک نئی منطق سامنے آنے لگتی ہے اور اتنی کمزور اور بے وقعت تاویلیں ہیں کہ ان کا جواب دینا بھی مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
ارطغرل کون تھا کیا تھا یہ سب تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے مگر ڈرامے کے اندر اس کو ایک فاتح اور جہانگیری کے ماہر کے طور پر پیش کیا گیا ہے ہم ایسی جگہ سے اس بات کو شروع کرنا چاہتے ہیں جو شاید ڈرامے میں نہیں دکھائی گئی، ہوا یوں کہ ارطغرل اپنے مختصر فوج کے ساتھ کہیں جا رہا تھا تو راستے میں دیکھا کہ دو فوجیں آپس میں برسر پیکار ہیں جن میں ایک فوج تعداد میں کم اور دوسری تعداد میں زیادہ ہے اپنی جنگجوانہ صفت اور اعلیٰ ظرفی کے بموجب اس نے کمزور فوج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے سپاہیوں نے ایسی کمال مہارت سے اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے کہ بڑی فوج کے چھکے چھوٹ گئے اور وہ میدان سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے جبکہ ارطغرل اور وہ چھوٹی فوج میدان فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے جنگ ختم ہونے کے بعد ارطغرل نے معلوم کیا کہ یہ دونوں فوجیں کون کون سی تھیں تو پتا چلا کہ چھوٹی فوج سلجوقیوں کی تھی جن کا بادشاہ اس وقت علا الدین تھا اور دوسری فوج تاتاریوں کی تھی۔ علا الدین کو جب ارطغرل کے بارے میں معلوم ہوا اور یہ کہ اس کی مدد سے سلجوق کی چھوٹی فوج نے تاتاریوں کو شکست دی تو علا الدین نے بیش قیمت خلعت اور بڑی جاگیر ارطغرل کو عطا کی اور یہیں سے ارطغرل کی قسمت کا ستارہ عروج پانے لگا وہ فتح پر فتح حاصل کرتا جاتا اور علا الدین اس کو جاگیریں شہر کے شہر اور فوجیں عطا کرتا جاتا اور ایک بڑی فوج کا سپہ سالار بھی اس کو بنا دیا لیکن ارطغرل ایک خاندانی شخص تھا جس میں مروت، وفا داری، اعلیٰ ظرفی اور بردباری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور اس نے کبھی کوئی موقع ایسا نہیں دیا کہ جس سے اس بات کا شائبہ تک ہو سکے کہ ارطغرل تکبر کا شکار ہوگیا ہے بے پناہ دولت اور ملکوں میں جائداد رکھنے والے ارطغرل نے کبھی آزادی کا نعرہ نہیں لگایا اور نہ ہی اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا وہ علا الدین کی موت تک اس کا وفا دار رہا جب علا الدین کا انتقال ہوگیا تو اطغرل کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا لیکن اس کی ملک گیری کی کوششیں جاری رہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لبرل دانشوروں اور ان کے آقائوں کو ارطغرل ڈرامے پر اتنا اعتراض کیوں ہے۔ اس ڈرامے سے کینہ اس قدر بھر گیا ہے کہ اب میڈیا پر ترکی کا ذکر ایسے کیا جاتا ہے جیسے ترکی سے مسلمانان پاک و ہند کا کوئی تاریخی، اسلامی، ذہنی، معاشرتی رشتہ ہی نہ ہو سب جانتے ہیں کہ مکہ مدینہ کے بعد مسلمان کسی ملک سے محبت کرتے ہیں تو وہ ترکی ہے اور ترک بھی پاکستانیوں اور ہند کے مسلمانوں کی بے حد عزت کرتے ہیں اور دونوں یک جان دو قالب کی مانند ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی میں شریک ہونا اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھتے ہیں مگر سیکولرز کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے برقی میڈیا کو یہ باتیں ہضم نہیں ہوتیں کیونکہ اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لیے چاہتے نہ چاہتے وہ بے پر کی ہانکنے پر مجبور ہیں اور ان کی بے بسی اور مجبوری ان کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔۔۔
اس وقت پورے ملک کے نوجوان اس ڈرامے کے سحر میں گرفتار ہو چکے ہیں آخر اس میں ایسی کون سی خوبی ہے جو نوجوانوں کو اس سحر سے باہر آنے نہیں دے رہی یہی وہ اصل اور بنیادی سوال ہے جو قوم کے دانشوروں کو مطلوب ہے۔ ارطغرل غازی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے جہانگیری بنیادی پالیسی ہوتی ہے اور وقت کا مقابلہ کرنے اور مخالف کو زیر کرنے اور کسی قسم کی مصالحت سے بے فکر ہوکر میدان کارزار میں کود پڑنے کا نام ہی بہادری، شجاعت اور جہانگیری ہے۔ حکمت کا مطلب مغلوب ہونا اور مصلحت کوشی کی پالیسیوں پر انحصار کمزور بزدل اور نکمے حکمرانوں کا شیوا ہوتا ہے جن کو تاریخ اپنی گود میں لینے کو تیار نہیں ہوتی۔ ایک زمانے سے ہماری قوم کو یہ سبق پڑھایا جاتا رہا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ جنگ خود ایک مسئلہ ہے لیکن دوسری جانب ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ اسلامی دنیا پر کفار کس طرح یلغار کر رہے ہیں اور جنگ کے بغیر ہی معصوم عورتوں بچوں اور جوانوں کو تہِ تیغ کر رہے ہیں جو کسی قسم کی جارحیت کے مرتکب نہیں ہوئے۔ وہ فلسطین ہو، وہ کشمیر ہو، افغانستان ہو، شام و عراق ہو اور اب تو بھارت جیسا بزدل بھی ہمارے سینوں پر مونگ دَل رہا ہے لیکن مسلمان حکمرانوں کا کام ہی صرف یہ لگا دیا گیا ہے کہ وہ ہر طرح سے اپنی قوم کو دھنیا پلا کر سلاتے رہیں۔ یہی نہیں بلکہ میڈیا پر عشق ومحبت کی داستانوں سے لبریز ڈرامے دکھا دکھا کر مردوں کو نامرد بنا دو اور ہر ڈراما شادی محبت گھر سے بھاگنا عورت کا غیر مرد کے ساتھ اختلاط شرم و حیا سے عاری ذو معنی گندے جملے شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک عورت کو غیر مرد کے ساتھ شب باشی کے غلیظ مناظر دکھاتے رہے اور قوم کے نوجوانوں کے اخلاق تباہ کر دو۔ یہ کام کوئی آج نہیں ہو رہا کہ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے اوباش عورتوں کا استعمال، کفار کے ان ہتھکنڈوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن اسلام ایک بہتا دریا ہے جو اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ ارطغرل ڈرامے سے ایک بات اور جو سمجھ میں آتی ہے کہ اگر قوم کو متحد منظم متحرک اور دشمن کی چالوں سے آگاہ رکھنا ہے تو جہانگیری بنیادی صفات میں شامل ہونی چاہیے وگرنہ ایک خانہ بدوش قوم کیونکر تین بر اعظموں پر حکمرانی کے قابل ہو سکتی تھی۔ اب کوئی یہ نہ کہے کہ وہ تلواروں کا زمانہ تھا آج ایٹم بم کا زمانہ ہے ہو ملک اور فوج اپنے وقت کے ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہے۔
بھارت جیسے بنیے کو اتنی ہمت کیسے ہوگئی کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہو اور وہ کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا رہے اور کوئی مسلم ملک آگے بڑھ کر بھارت کا ہاتھ نہ پکڑ سکے۔ ارطغرل غازی کی بے پناہ مقبولیت کے پیچھے یہی بنیادی نکتہ ہے کہ ستر سال سے ذہنی فکری اور جسمانی طور پر دبا کر رکھے جانے والوں کی آج کی نسل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ دنیا میں عزت و احترام سے جینا اور تاریخ کی آغوش میں پناہ حاصل کرنی ہے تو جہانگیری شجاعت بہادری جیسے اوصاف اپنانے ہوںگے نوجوان نسل سوچ رہی ہے کہ آخر ہم کیوں بھارتی بنیے کو منہ توڑ جواب نہیں دے سکتے اور دنیا کے ہر مسلم ملک کا نوجوان یہی سوچ رہا ہے کہ آخر ہم کو کیا ہوگیا ہے کہ ہم اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کو نہیں پہنچ پارہے جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں، کشمیر و فلسطین عراق و شام ہم کو آواز دے رہے ہیں کہ آئو ہماری مدد کرو وگرنہ ہم تو شاید مظلوم کی حیثیت سے تاریخ میں زندہ رہ جائیں مگر تم کو تاریخ اپنے یہاں پناہ تو کجا اپنے دروازے پر پھٹکنے کے قابل نہیں سمجھے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری دنیا کے مسلم ممالک خاص طور پر پاکستان کے نوجوانوں کے صحابہ کرام کی سیرت سے آگاہ کیا جائے مسلمان فاتحین کی تاریخ پڑھائی جائے اور دنیا میں عزت سے رہنے کی بنیادی حکمت سے آگاہ کیا جائے۔ ترک غیر نہیں بلکہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فی زمانہ پالیسیاں بنائی جائیں۔ یہ خاکسار کوئی 35 سال پہلے ترکی یاترہ کر چکا ہے جب ایک پاکستانی روپے میں 19 لیرا (ترک کرنسی) آتے تھے صرف پینتیس سال کی قلیل مدت میں ترکی نے پورے یورپ کو ترقی میں پیچھے چھوڑدیا ہے آج ترک لیرا امریکی ڈالر کے برابر آچکا ہے اور ہماری کرنسی دن بدن زوال کا شکار ہے۔ یہ مقام ترک قوم نے ایسے ہی حاصل نہیں کرلیا مغربی اقوام کو ترکوں کی تاریخ کا اچھی طرح پتا ہے جن کی جفاکشی سے لیکر شجاعت اور بہادری کے ایک ایک قصے ان کے دماغوں میں نقش ہیں یہ مقام حاصل کر لینے کے بعد اب ترک قوم ذہنی طور پر آزاد ہے کہ جو چاہے پالیسیاں بنائے، اپنے عوام کے لیے جیسے چاہے بہتری کے اقدامات کرے، اپنا پیسہ جہاں چاہے استعمال کرے اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا حسب مقدور مدد کو پہنچے کوئی اس کو روکنے والا نہیں، کہیں سے اس کو فون آنے والا نہیں، وہ آزاد ہے ذہنی جسمانی فکری فوجی ہر اعتبار سے اور یہ مقام حاصل کرنے میں اس کو صدیوں محنت شاقہ سے گزرنا پڑا لیکن صلیبی جنگوں کے بعد جو بقول کسے سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی اور بعد میں جنگ عظیم اول کے بعد ترکمان عثمانیہ کے خلاف مغرب نے سازش کی اور ان کی تین براعظموں پر محیط عظیم الشان سلطنت کو سازشوں کے ذریعے سکیڑ کر ترکی تک محدود کر دیا پھر اپنا ایک پٹھو مصطفی کمال کو ترکوں پر مسلط کر دیا بس اسی دورا ترکوں کی معیشت، معاشرت، تہذیب و تمدن سب تباہ و برباد کردیا گیا لیکن گزشتہ پینتیس سال میں جب سے اسلامی ذہن رکھنے والے محمد علی اربکان سے طیب اردوان تک سیاسی قیادت نے ترکی کی باگ ڈور سنبھالی ہے ترکی ترقی کی راہ پر گامزن ہوچلا ہے اب آخری رکاوٹ وہ معاہدہ جو سو سال کے لیے ترکوں پر مسلط کردیا گیا تھا وہ بھی 2023 میں ختم ہوا چاہتا پھر ترکی کا عروج دیکھنے سے تعلق رکھے گا۔ یہ ہیں وہ تاریخی اور حال کے تناظر میں ذہنوں میں پیدا ہوئے اور جنہوں نے قوم کے نوجوانوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ایک نئی جوت جگا دی ہے کہ ہم مغلوب اور محکوم نہیں ہو سکتے کیوں کہ ہم ارطغرل کے وارث ہیں۔