ارطغرل اور پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر

1331

پاکستان کے سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ عناصر کو اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ سے ایسی نفرت ہے کہ انفرادی یا اجتماعی زندگی میں اس کی ایک جھلک بھی ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ان کا اصول یہ ہے کہ یا تو ’’دشمن‘‘ کو مار ڈالو، یا بدل ڈالو۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے مشتبہ بنادو۔ اقبال کی شاعری کا خمیر اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ سے اٹھا ہے، اس لیے سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ عناصر اقبال پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک ٹھوس مثال یہ ہے کہ معروف سوشلسٹ دانش ور ڈاکٹر مبارک نے ایک ٹیلی وژن پروگرام میں اقبال کو ’’دہشت گرد شاعر‘‘ قرار دیا۔ بعض ترقی پسند اقبال کو سوشلسٹ بنادیتے ہیں اور اقبال کے اس شعر کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
دیکھا جائے تو اقبال کا یہ شعر اپنی اصل میں ’’انقلابی‘‘ ہے، ورنہ اقبال نے اپنی شاعری میں سوشلسٹوں کو ’’اشتراکی کوچہ گرد‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کا مذاق اڑایا ہے، اور ابلیس کی زبان سے کہلوایا ہے کہ مستقبل کا خطرہ سوشلزم یا اشتراکیت نہیں بلکہ اسلام ہے۔ جہاں تک اقبال کے ’’اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو‘‘ والے شعر کی بات ہے تو اب سوشلسٹ چین میں اس شعر کی نوعیت یہ ہوگئی ہے:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
(اور ان سے کہو)
کاخِ امرا کے در و دیوار سجا دو
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ قائداعظم کی پوری شخصیت اور عظمت دو قومی نظریے میں پیوست ہے، اور دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں، مگر اس کے باوجود سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ عناصر قائداعظم کو سیکولر اور لبرل باور کراتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ قائداعظم کی لغت میں سیکولرازم اور لبرل ازم کی اصطلاحیں موجود ہی نہیں۔
اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ سے سیکولر اور لبرل عناصر کے بغض کی تازہ ترین مثال ترکی کی پاکستان میں ڈب کرکے دکھائی جانے والی ڈراما سیریل ’’ارطغرل غازی‘‘ ہے۔ اس ڈراما سیریل نے پاکستان میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ دی نیوزکی ایک رپورٹ کے مطابق اس ڈراما سیریل کو ابتدائی دنوں میں 13 کروڑ سے زیادہ افراد نے دیکھا (دی نیوز 24 مئی 2020ء)۔ روزنامہ ڈان جیسے سیکولر اخبار نے ارطغرل پر ایک تفصیلی خبر شائع کرنا ضروری سمجھا۔ ڈان کی خبر کے مطابق صرف یوٹیوب پر اس ڈرامے کو اب تک 24 کروڑ افراد دیکھ چکے ہیں۔ ڈان کے مطابق بعض لوگ اس ڈرامے کو پورے خاندان کے ساتھ دیکھ رہے ہیں (روزنامہ ڈان۔ 24 مئی 2020ء)۔ اس ڈرامے کی غیر معمولی پزیرائی کی صرف دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ڈراما خلافتِ عثمانیہ اور اُس سے وابستہ عظمت کا مظہر ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ڈراما جدید ترین فنی لوازمات کا حامل ہے۔ ان تمام چیزوں نے مل جل کر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کو اتنا ہراساں کیا ہے کہ وہ ارطغرل پر پل پڑے ہیں۔
یوں تو سیکولر اور لبرل عناصر نے ارطغرل پر اعتراضات کی بارش کردی ہے مگر چار اعتراضات بیک وقت اہم اور حیران کن ہیں۔ سیکولر اور لبرل عناصر نے ارطغرل پر پہلا اعتراض یہ کیا ہے کہ ڈراما اور اس کا مواد درآمد کیا گیا ہے، ’’مقامی‘‘ نہیں ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں 73 سال سے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں دکھائی جارہی ہیں مگر ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر نے کبھی تفریحی مواد کے مقامی یا غیر مقامی ہونے کا سوال نہیں اٹھایا۔ پاکستان میں گزشتہ 73 سال میں ہالی ووڈ کی کم از کم ایک ہزار اور ہندوستان کی کم از کم 5 ہزار فلمیں تو دکھائی ہی گئی ہوں گی، مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل افراد نے 6 ہزار فلموں کو کبھی ’’غیر ملکی‘‘ یا ’’درآمدی مال‘‘ قرار نہیں دیا۔ ہم نے کئی دہائیوں تک بھارت کے ٹیلی وژن چینلوں کے ڈرامے بھی دیکھے ہیں، مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر نے ان ڈراموں کے بارے میں کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ غیر ملکی مواد ہے ہم کیوں دیکھیں؟ 73 سال سے پاکستان کے کروڑوں لوگ بھارت کے ہزاروں گیت اور موسیقی سن رہے ہیں مگر ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ گیت اور ان کی موسیقی درآمد شدہ ہے۔ مگر ارطغرل کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ تو ’’غیر ملکی‘‘ ہے، یہ تو ’’درآمدی مال‘‘ ہے، یہ تو ’’غیر مقامی‘‘ ہے، ہمیں اپنا مواد خود پیدا کرنا چاہیے۔ بے شک ہمیں اپنا تفریحی مواد خود پیدا کرنا چاہیے، مگر ’’اپنے مواد‘‘ کی کوئی تعریف بھی تو وضع ہونی چاہیے۔ مثلاً پاکستان میں جو ’’مقامی فلمیں‘‘ بن رہی ہیں وہ ہندوستان کی فلموں کے بھونڈے چربے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کہنے کو یہ فلمیں ’’مقامی‘‘ ہیں، مگر اپنی روح اور اپنے مواد کے اعتبار سے پاکستانی فلمیں بھی دراصل بھارتی فلمیں ہیں۔ سیکولر اور لبرل عناصر کہا کرتے ہیں کہ ایک چیز ’’بین الاقوامیت‘‘ بھی ہوتی ہے۔ آرٹ ’’آفاقی‘‘ ہوتا ہے، اس کی کوئی ’’سرحد‘‘ نہیں ہوتی، چناں چہ امریکا اور بھارت کی فلموں پر اعتراض کا جواز نہیں۔ اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو ارطغرل بھی ’’بین الاقوامیت‘‘ اور ’’آفاقیت‘‘ کا حصہ ہے۔ یہ بھی آرٹ ہے اور اس کی بھی کوئی ’’سرحد‘‘ نہیں۔ مگر سیکولر اور لبرل عناصر کو ارطغرل کے سلسلے میں نہ کوئی بین الاقوامیت یاد آرہی ہے، نہ کوئی آفاقیت سوجھ رہی ہے، نہ آرٹ کے سرحدوں سے بے نیاز ہونے کا خیال آرہا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ارطغرل کا تعلق ایک حد تک سہی، اسلام سے ہے۔ اس کا تعلق اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ سے ہے۔ ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر کا یہ طریقٔہ واردات صرف ارطغرل کے حوالے سے نہیں ہے۔ ملک میں جیسے ہی نفاذِ اردوکی بات ہوتی ہے انگریزی اخبارات میں ایسے مضامین شائع ہونے لگتے ہیں کہ اردو تو صرف 7 فی صد افراد کی زبان ہے۔ تعلیم ہی دینی ہے تو ہمیں ’’مقامی زبانوں‘‘ یا مادری زبانوں میں دینی چاہیے۔ لیکن ایسی باتیں کرنے والوں نے آج تک انگریزی کو ’’غیر ملکی‘‘ قرار دے کر اس کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی۔ کوئی بھی سیکولر اور لبرل دانش ور یہ نہیں کہتا کہ انگریزی ہماری غلامی کی علامت ہے، نوآبادیاتی تجربے کی یادگار ہے، غیر ملکی آقائوں کے نظر نہ آنے والے اقتدار کا استعارہ ہے۔
سیکولر اور لبرل عناصر نے ارطغرل پر یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اس کا مرکزی کردار ’’مقامی ہیرو‘‘ نہیں ہے۔ لیجیے اب ہیرو بھی مقامی اور غیر مقامی ہونے لگے۔ ایک چیز ثقافت ہے، ایک چیز تہذیب ہے۔ ثقافت تہذیب کی ’’مقامیت‘‘ ہے اور تہذیب ثقافت کی ’’بین الاقوامیت‘‘ ہے۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ کچھ ہیرو ثقافتی ہیرو ہوتے ہیں، اور کچھ ہیرو تہذیبی ہیرو ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ شاعری کے دائرے میں میرؔ ہمارا مقامی ہیرو ہے، اور مولانا روم ہمارے بین الاقوامی ہیرو ہیں۔ ارطغرل بلاشبہ ترکی کی خاک سے اٹھا، مگر وہ اُس خلافت ِ عثمانیہ کی علامت ہے جو ہماری تہذیب کا استعارہ ہے، اور جس کی حکومت صرف ترکی پر نہیں تین براعظموں پر تھی۔ چناں چہ ہمیں اپنے مقامی ہیروز سے بھی محبت کرنی ہے اور اپنے بین الاقوامی ہیروز سے بھی محبت کرنی ہے، اس لیے کہ یہ دونوں اقسام کے ہیروز ہمارے اجتماعی وجود یا Collective Self کا حصہ ہیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ ارطغرل ہمیں اس بات سے روک تو نہیں رہا کہ ہم اپنے مقامی ہیروز پر ڈرامے نہ بنائیں، یا اپنا مقامی تفریحی یا تاریخی مواد تخلیق نہ کریں۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر نے ارطغرل کے حوالے سے ایک بات یہ کہی ہے کہ ارطغرل کو مواد کے تبادلے کے پروگرام کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ یعنی ہم نے ارطغرل دکھایا ہے تو ترکی بھی پاکستان کے ڈرامے دکھائے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر نے کبھی ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلموں کے سلسلے میں یہ دلیل کیوں نہیں دی؟ انہوں نے کبھی یہ کیوں نہ کہا کہ ہالی ووڈ سے سال میں دس فلمیں پاکستان آئیں گی تو پاکستان سے پانچ فلمیں امریکا جائیں گی۔
بھارت سے سال میں پچاس فلمیں آئیں گی تو پاکستان سے بھی بیس فلمیں ضرور بھارت جائیں گی۔ آخر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کو تفریحی مواد کے ’’تبادلے‘‘ کا خیال صرف ارطغرل کے حوالے سے کیوں آیا؟
بعض سیکولر اور لبرل عناصر نے ارطغرل پر یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اس کا کردار حقیقی یا تاریخی کم اور افسانوی زیادہ ہے۔ یہ دعویٰ بڑی حد تک جھوٹ ہے۔ لیکن فلم اور ڈرامے میں تاریخ اور افسانہ ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ’’واک‘‘ کرنے کے عادی ہیں۔ برصغیر کی سب سے بڑی تاریخی فلم کے آصف کی ’مغل اعظم‘ ہے۔ اس فلم کو برصغیر کی کئی نسلوں نے دیکھا ہے، اور یہ فلم ہمیشہ زندہ رہے گی، مگر اس فلم کے پروڈیوسر کے آصف نے فلم کے آغاز ہی میں بتادیا ہے کہ یہ فلم ’’تاریخ‘‘ اور ’’افسانے‘‘ کا ملغوبہ ہے۔ کتنا ملغوبہ؟ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس فلم میں تاریخ صرف پانچ فی صد ہے، اس کے برعکس افسانہ 95 فی صد ہے، مگر آج تک کسی سیکولر اور لبرل شخص کو ہم نے یہ کہتے نہیں سنا کہ مغل اعظم دیکھنے کا کیا فائدہ؟ اس میں ’’تاریخ‘‘ بہت کم اور ’’افسانہ‘‘ بہت زیادہ ہے۔
ہالی ووڈ میں ایسی سیکڑوں فلمیں بنی ہیں جو تاریخ اور افسانے کا ملغوبہ ہیں۔ مثلاً Brad Pitt کی Troy اس کی ایک مثال ہے۔ Tom Cruise کی The Last Samurai اس کی دوسری مثال ہے۔ Mel Gibson کی Brave Heart اس کی تیسری مثال ہے۔ مگر ہم نے آج تک کسی سیکولر اور لبرل دانش ور کو ان فلموں کے بارے میں یہ کہتے نہیں سنا کہ انہیں دیکھنے کا کیا فائدہ! ان میں Facts کو Fiction سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ مگر ارطغرل کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ تو افسانہ زیادہ ہے حقیقت کم ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ Fantasy تخیل کی بے لگام پرواز کے سوا کچھ نہیں ہوتی، مگر ہالی ووڈ نے ایسی درجنوں فلمیں بنائی ہیں جن میں Fantacy کو حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اتفاق سے ہم نے آج تک کسی سیکولر اور لبرل شخص کو ہالی ووڈ پر یہ اعتراض کرتے نہیں دیکھا کہ وہ Fantacy کو حقیقت کے طور پر کیوں پیش کرتا ہے؟
پاکستان میں عوام نے ارطغرل کو جو پزیرائی بخشی ہے اُس سے اِس خیال کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ پاکستان میں کروڑوں لوگ اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی عظمت کے ساتھ کسی نہ کسی درجے کی وابستگی رکھتے ہیں اور وہ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کو ایک بار پھر حقیقت بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیکولر اور لبرل عناصر کا ارطغرل کی شہرت سے حسد قابلِ فہم ہے۔