لیبیا فوج نے اہم قصبے سے باغیوں کو ماربھگایا

298

طرابلس (انٹرنیشنل ڈیسک) لیبیا میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قومی وفاق حکومت کی فوج اور جنگجوؤں نے روس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ باغی ملیشیا کو اہم قصبے سے مار بھگایا۔ خبررساں اداروں کے مطابق دارالحکومت طرابلس سے 90 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ترہونہ ملک کے مغربی میں حفتر ملیشیا کا واحد گڑھ اور اس کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا، کیوں کہ باغی اسے دارالحکومت پر حملوں اور رسد کی ترسیل کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ فوج کے مطابق اس نے اس قصبے کو چاروں طرف سے گھیر کر جمعہ کے روز کنٹرول حاصل کیا اور حفتر ملیشیا کو پسپا کرکے اس کے ایک اہم کمانڈر ریاض الکبیر کو گرفتار کر لیا۔ اس دوران فوج کو ترہونہ سے کروڑوں ڈالر کا غیرملکی اسلحہ بھی ملا۔ یوں فوج نے 14 ماہ کے دوران مغربی حصے میں باغیوں کے ہاتھ آنے والے تمام علاقے واپس لے لیے۔ الجزیرہ کے مطابق اپنے حلیف باغیوں کی اس بڑی شکست کو دیکھتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے جنگی طیاروں نے جمعہ کے روز ترہونہ پر بم باری بھی کی۔ فوج کو ترہونہ کے اسپتال سے تقریباً 100 لاشیں بھی ملیں، جو تمام کی تمام شہریوں کی بتائی جاتی ہیں۔ جب کہ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج نے دارالحکومت طرابلس کے تمام داخلی و خارجی راستوں پر ایک بار پھر قبضہ کر لیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے لیبیا کے وزیراعظم فائز سراج سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انہیں لڑائی روک کر بحران کے سیاسی حل کی طرف آنے پر زور دیا۔ جب کہ ابوظبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کی مسح افواج کے نائب سربراہ شیخ محمد بن زاید النہیان نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ امریکی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے بات چیت میں علاقائی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں شخصیات نے لیبیا میں جنگ بندی اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں سیاسی بات چیت کے دوبارہ آغاز کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ اس سے قبل جمعرات کے روز لیبیا میں امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ تمام غیر ملکی اجرتی جنگجوؤں کو ملک سے جانا ہو گا۔ امریکی سفیر کے مطابق لیبیا میں تنازع کو اب رک جانا چاہیے۔ انہوں نے لیبیا میں تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ بات چیت کے عمل میں شریک ہوں۔ اس سے قبل 14 ماہ سے جاری باغیوں کی پیش قدمی کے وقت عالمی طاقتوں نے خاموشی اختیار کررکھی تھی۔ اس دوران دارالحکومت طرابلس اور دیگر علاقوں کی جانب باغیوں کی پیش قدمی اور آبادیوں پر گولہ باری سے ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے، جن میں کئی سو شہری بھی تھے۔ تاہم عالمی اور علاقائی طاقتوں نے لڑائی رکوانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کے بجائے صرف بیانات دینے پر ہی اکتفا کیا۔