کیا کورونا وبا کے دوران سماجی فاصلہ خود کشیوں کا باعث بنا؟

380

یورپ میں جس وقت میل ملاپ کو محدود کرنے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے متعلق پابندیاں عائد کی جا رہی تھیں، طبی ماہرین نے اسی وقت خبردار کر دیا تھا کہ اس کے نتائج مہلک اور ذہنی بیماريوں کی صورت میں نکلیں گے۔نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جب لوگوں کو صرف گھروں تک محدود رہنے کی تلقین کی جا رہی تھی، اس وقت بہت سے طبی ماہرین کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تنہائی سے لوگوں کو اضطراب میں اضافے کے ساتھ ساتھ مالی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس دوران ان کی تھراپی بھی ممکن نہیں ہو گی اور یوں جرمنی میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
جرمنی میں کچھ شواہد ایسے سامنے بھی آئے ہيں، جو کسی حد تک ان خدشات کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔ اپریل کے اواخر میں جرمن فائر بریگیڈ یونین نے بزنس انسائیڈر سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے اہلکاروں کو زیادہ خود کشیوں سے نمٹنا پڑ رہا ہے اور ایسی تحریریں بھی ملی ہیں، جن میں خودکشی کرنے والوں نے بتایا کہ وہ کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔ تاہم اس یونین نے اعتراف کیا کہ سرکاری سطح پر ایسے اعداد و شمار جمع نہیں کیے گئے۔
تاہم اب جرمن پارلیمانی حکام نے اس حوالے سے اعداد و شمار جاری کیے ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کے بحران کے دوران خودکشی کرنے والوں کی شرح میں در اصل کمی واقع ہوئی ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال پابندیوں کے نفاذ کے بعد والے مہینوں میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں بیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 664 افراد نے خودکشی تھی جبکہ اب یہ تعداد 530 بنتی ہے۔یونیورسٹی میڈیکل سینٹر مائنز کے ماہر نفسیات ہاؤکے وائیگانڈ کا خبردار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ابھی تو کورونا بحران کے اثرات کی صرف چند تصاویر ہی سامنے آئی ہیں جبکہ مزید تفصیلات وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”ماضی سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ خودکشیاں معاشی بحران کے دوران ہوتی ہیں۔ اصل دباؤ بے روزگاری اور مالی پریشانیوں کا ہوتا ہے۔ تو ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔‘‘