ٹڈل دل کا تدارک کریں

538

فرحان شوکت ہنجرا
ملک میں ٹڈی دَل کے حملوں نے کسان کا برا حال کر دیا ہے جس سے فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے جس کی وجہ زراعت میں ناکام پالیسیاں نافذ کرنا ہے۔ زرعی سیکٹر کا جی ڈی پی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے تاہم ایگری کلچر سیکٹر اب بھی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ تمام حکومتوں نے زراعت کو نظر انداز کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ موسمی تبدیلیاں اور حشرات کے حملوں نے کسانوں کو ناقابل تلافی معاشی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں ریسرچ کا نہ ہونا، آبپاشی کے نظام کو جدید تقاضوں پر آپریشنل نہ کرنے اور ناکام حکومتی پالیسیوں سے نہ تو روایتی فصلوں کی پیداوار بڑھی اور نہ ہی کسانوں کی توجہ دیگر غیر روایتی کیش کراپس کی جانب دلوائی گئی ہے۔
اس وقت کورونا سے بھی بڑا عذاب ٹڈی دَل کی صورت میں زراعت پر حملہ آور ہو چکا ہے چوںکہ ٹڈی دَل صرف کھیتوں کھلیانوں اور دیہاتوں میں تباہی مچا رہا ہے شاید اس لیے یہ مسئلہ ہمیں قومی ذرائع ابلاغ پر اس طرح نظر نہیں آ رہا جیسے کہ آنا چاہیے۔ پنجاب کے کم و بیش تمام اضلاع سے جو اطلاعات آ رہی ہیں وہ خوفناک ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 154اضلاع میں سے 61اس وقت ٹڈی دل کے نشانے پر ہیں اور مزید اضلاع پر ٹڈی دَل کے حملے بڑھنے کا خدشہ ہے۔ کیوںکہ افریقا سے ٹڈیوں کے مزید غول پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے جون جولائی تک یہاں پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح پہلے سے موجود ٹڈی دَل کے ساتھ جب یہ غول بھی مل جائیں گے تو زرعی پیداوار اور سبزے کے لیے غیر معمولی تباہی لا سکتے ہیں۔
خوراک کے تحفظ، مویشیوں کی بقا اور سماج کے کمزور طبقات کے لیے یہ صورت حال تباہ کن ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک اور زراعت نے رواں ماہ کے شروع میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ جاری سال میں پاکستان میں ٹڈی دل کی وجہ سے ربیع اور خریف کی فصلوں کا مجموعی نقصان کا مجموعی مالیت کے 15فی صد کے برابر 205ارب روپے کے قریب جبکہ خریف کی فصلوں کے نقصان کا تخمینہ 25فی صد 464ارب روپے لگایا گیا ہے۔ صوبہ سندھ پنجاب میں کپاس کی بوائی اور اسی طرح سینٹرل پنجاب کے اضلاع میں چاول کی بوائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان اضلاع میں فی الوقت ٹڈی دَل کے حملے کا فی الحال تو خطرہ نہیں ہے لیکن جولائی کے بعد جب کپاس، چاول کی فصل بڑھوتری کی طرف بڑھے گی اور اکتوبر، نومبر میں جب ان فصلوں کی تیاری ہو گی تو تصور کریں کہ ٹڈل دَل ان فصلوں کو ملیا میٹ نہیں کرے گی؟ بلکہ پاکستان کی معیشت اور زرمبادلہ کی آمدن کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے گی۔ لہٰذا حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتیں ہوش کے ناخن لیں اور ٹڈی دَل کے حملے کی روک تھام اور تدارک کے لیے جنگی بنیادوں پر پلان ترتیب دے۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں کورونا وبا پر روزانہ معمول کے مطابق اجلاس کر رہی ہیں، فیصلے صادر ہو رہے ہیں، عوام کو آگاہی دی جا رہی ہے، لیکن آنے والے وقت میں ٹڈل دل کے حملے در حملے میں فوڈ سیکورٹی کے خطرات سے بالکل عاری نظر آ رہی ہیں۔ آج کورونا کی وبا کے باوجود پاکستان میں کھانے پینے، اشیا خورو نوش، گندم چاول کے اسٹاک کی بدولت وہ خطرناک صورت نہیں جو عالمی وبا کی شکل میں افریقا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ الحمدللہ خوراک کے حوالے سے اب تک تو خطرے کی حالت سے باہر ہے، لیکن جس انداز سے ٹڈل دل 61اضلاع تک پہنچ گئی ہے اگر یہ اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی جس سے سبزیاں، پھل، چاول، لائیواسٹاک، جانوروں کی خوراک میں کمی سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ناگزیر ہے کہ وزیراعظم پاکستان چاروں صوبائی حکومتوں کے وزرا اعلیٰ جات، نیشنل پرونشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز سمیت قومی سیاسی قیادت کا مشاورتی اجلاس بلائیں اور پاکستان کو مستقبل میں خوراک سمیت زرمبادلہ میں کمی کے ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کے لیے قومی پلان ترتیب دیں۔ ’’وقت کم اور کام زیادہ ہے‘‘، ’’ویلے دی نماز تے کویلے دی ٹکراں‘‘ اگر اب اس ٹڈی دل آفت پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان شدید مالی اور خوراک کے بحران سے دوچار ہو جائے گا اور ایسا ناقابل تلافی نقصان ہو گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
دوسری طرف ملک میں آٹے کے نرخوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس پر نانبائی ایسوسی ایشن نے بھی روٹی اور نان کی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دے دیا ہے۔ گندم کی امدادی قیمت 1400 روپے فی من مقرر ہے جب کہ کیسی سستم ظریفی ہے کہ اوپن مارکیٹ میں 1800روپے فی من گندم کا ریٹ ہو گیا ہے یہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے، یہ کون سا مافیا ہے کہ حکومت کی آنکھ سے اوجھل ہے۔ کسانوں کو تو 1400روپے بھی فی من گندم کی قیمت مل نہیں سکی وہ مڈل مین آڑھتیوں کے ہاتھوں لٹ گئے۔ اب گندم کا ریٹ 1800روپے سن کر اوسان خطا ہو گئے ہیں کہ غریب اور متوسط طبقے کا کیا ہو گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں آٹا، چینی مافیا کا ہی راج ہے۔ چینی اسکینڈل پر قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ آ چکی ہے، لیکن معلوم یہی ہو رہا ہے کہ ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ والی صورت حال ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ولیڈران کی شوگر ملیں ہیں اور روزانہ یہی طبقات ایک دوسرے پر چینی پر ناجائز سبسڈی لینے اور ایک دوسرے پر الزامات داغتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں کہ چور بھی کہے چور چور چوروں سے خبردار رہیے۔
چینی کی فی کلو قیمت 90روپے ہو گئی ہے جو 55روپے کلو ہونی چاہیے چینی پر ناجائز منافع حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ملز مالکان قیادتوں ہی کی جیبوں میں جا رہا ہے تو بتائیں کون سا احتساب اور کون سی ریکوری!
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق مزدوروں، کسانوں اور عام آدمی کی آواز بن کر ہمیشہ سامنے آئے ہیں گزشتہ دنوں انہوں نے قومی میڈیا پر بریفنگ دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کورونا میں عوام الناس کو ریلیف کے نام پر مختص کی گئی 1200ارب روپے کی رقم میں ٹڈل دَل سے متاثرہ فصلوں کے کسانوں کے لیے بھی معقول رقم رکھی جائے کیوںکہ ٹڈل دل کے حملے سے کسانوں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ کسانوں کی داد رسی کرے ہم سراج الحق صاحب کے مطالبے کی مکمل تائید کرتے ہیں۔