اسٹیل مل کی بربادی

666

قاسم جمال
عمران خان کی حکومت جس دن سے اقتدار میں آئی ہے روز ایک نیا تماشا اور تنازع رونما ہوتا ہے۔ پاکستان اسٹیل جیسا عظیم الشان ادارہ جو روس کے تعاون سے جنرل ضیاء الحق کے دور میں قائم ہوا اس ادارے کا سنگ بنیاد پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا۔ عظیم الشان فولاد سازی کایہ واحد ادارہ ملک کی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا لیکن ملک دشمن قوتوں اور اسٹیل مافیا نے جان بوجھ کر اس منافع بخش ادارے کو جو اپنی لاگت بھی پوری کر چکا تھا اسے سفید ہاتھی بنا کر پیش کیا گیا اور اسے منافع بخش ادارے کو نااہل انتظامیہ اور سیاسی مداخلت نے دیوالیہ کر دیا۔ گزشتہ پانچ برسوں سے یہ قومی ادارہ مکمل طور پر بند اور پیداواری نظام صفر ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں اس اہم قومی ادارے کو اونے پونے داموں بیچنے کا پروگرام بھی بنا لیا گیا اور جتنی مالیت کی اس ادارے کی زمین ہے اس سے بھی کم قیمت پر یہ ادارہ فروخت کیا جارہا تھا لیکن اس وقت کی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے پرویز مشرف کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا تھا۔
فولاد سازی کا یہ عظیم الشان ادارہ جو ناصرف ملکی صنعت کو بہترین اور اعلیٰ معیار اور کوالٹی کی مصنوعات فروخت کررہا تھا دوسری جانب یہاں ہارٹ اسٹرپ ملز، بلڈ کاسٹر اور بلڈ ملز میں تیار ہونے والی مصنوعات دفاعی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ یہاں تیار ہونے والی اسٹیل سے جنگی سازوسامان، ٹینک، اسلحہ، آب دوز ودیگر سامان تیار کیا جاتا تھا۔ پرویز مشرف کی سازشوں کے بعد اسٹیل مل دشمن مافیا خاموش نہیں بیٹھی اور جب بھی اس کو موقع ملا اس نے پیٹھ میں چھرا گھوپنے میں دیر نہیں لگائی۔ پاکستان اسٹیل میں اس وقت تقریباً 9350 ملازمین موجود ہیں جبکہ گزشتہ پانچ سال میںچھ ہزار ملازمین ریٹائر ہوچکے ہیں اور ان میں سے ایک ہزار کے قریب ملازمین انتقال بھی کرچکے ہیں۔ ریٹائر ہونے والے ملازمین اپنے واجبات کی وصولی کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے مشیر خاص وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر صدر مملکت عارف علوی نے اقتدار سے آنے سے پہلے متعدد بار اسٹیل مل کے محنت کشوں کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت جب بھی اقتدار میں آئے گی تو وہ اس قومی ادارے کو بحال کرے گی اور پیداواری نظام شروع کیا جائے گا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے دو سال انہوں نے بیان بازیوں ہی میں صرف کیے اور ایک کروڑ نوکری فراہم کرنے کے دعویداروں نے اس عظیم ادارے کی بساط لپیٹنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک ماہ کے نوٹس پر 9350 ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کے اس اعلان سے اسٹیل مل کے غریب اور پریشان حال محنت کشوں کے گھروں پر صف ماتم بچھ گیا ہے۔ تحریک انصاف نے ہمیشہ اسٹیل مل کی تباہی کا ذمے دار سابقہ حکومتوں کو قرار دیا ہے لیکن سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار کرپشن کی سزا غریب محنت کشوں کو دینا کہاں کا انصاف ہے؟ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں ملک کے سب سے بڑے قومی ادارے کی یہ تباہی وبربادی ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمر منہ چھپائے کہیں دبکے پڑے ہوںگے۔
عوام پہلے ہی کورونا اور لاک ڈائون کے عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسد عمر تمہاری حکومت نے ان غریب محنت کشوں جن کی تنخواہیں بھی تین تین اور چار چار مہینے کے بعد آتی ہیں کو بھوک غربت افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ریاست مدینہ کے دعویداروں کیوں مدینے کی ریاست کو بدنام کر رہے ہو۔ تمہاری حکومت نے ادارے کی نج کاری اور فروخت کے لیے ادارے کے اسٹیک ہولڈر محنت کشوں اور آفیسرکی تنظیموں سے بھی بات کرنا گورا نہیں کیا اور بغیر کسی مشاورت سے ملک کے سب سے بڑے فولاد سازی کے ادارے کی بساط لپیٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت کی جانب سے گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کے تحت مختص کیے گئے 18ارب روپے ملازمین ہی کی جمع پونجی ہے جس کو حکومت گولڈن ہینڈ شیک کا نام دے رہی ہے۔ اسٹیل مل کے محنت کشوں کی ملازمتوں سے جبری برطرفی محنت کشوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیر انہیں ایک بند گلی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ عوام غربت مہنگائی بے روزگاری کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
دو ماہ سے جاری لاک ڈائون کو عوام نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر برداشت کر لیا ہے۔ حکومت نے کورونا کے نام پر پوری دنیا سے امداد سمیٹی ہے لیکن یہ امداد کس کو ملی یہ کسی کو خبر نہیں۔ حکومت کے ظلم اور ستم پر عوام کے دلوں میں ایک لاوا پک رہا ہے۔ ملک انارکی کی کیفیت سے دوچار ہے معمولی سی بھی چنگاری سب کچھ بھسم کر دے گی۔ اسٹیل مل پاکستان کا وہ ادارہ ہے جو اپنے قیام سے مستقل طور پر منافع بخش ادارہ رہا ہے لیکن جان بوجھ کر اس منافع بخش ادارے کو تباہ کر کے اسے سفید ہاتھی اور دیوالیہ قرار دیا گیا۔ اس ادارے کی تباہی میں کسی محنت کش کا کوئی ہاتھ نہیں ہے اس ادارے کو کرپٹ نوکر شاہی، نااہل مینجمنٹ اور سرکاری مداخلت نے تباہ کیا ہے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور آگ سے نہ کھیلے۔ ایک کروڑ نوکری دینا ان کے بس میں نہیں ہے تو وہ لوگوں کو بے روزگار تو نہ کریں۔
عمران خان صاحب آپ پیراشوٹ کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں۔ آپ نے مزدوروں کی طاقت اور قوت نہیں دیکھی ہے۔ مزدور کے بچے جب بھوک سے بلکتے ہیں تو پھر مزدور کی آنکھ کھلتی ہے اور مزدور بیدار ہوتا ہے تو پھر سارا جہاں بیدار ہوجاتا ہے۔ عمران خان آپ کی حکومت پہلے ہی بے ساکھیوں کی محتاج ہے معمولی سی جنبش آپ کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دے گی۔ مزدوروں کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا۔ مہنگائی بے روزگاری نے انہیں بجلی گیس کے بلوں بچوں کے اسکولوں کی فیسوں مکان کے کرائے کے چکر میں پھنسا کر رکھا ہوا ہے اور یہ وہ عالمی ایجنڈا ہے جس نے غریبوں کو باندھ کر رکھا ہوا ہے لیکن اب ظلم اور جبر اپنی تمام حددیں پھلانگ چکا ہے۔ اب کوئی راستہ نہیں کہ محنت کش اپنی کشتیاں جلا کر میدان میں نکلیں اور سڑکوں کو گرم کیا جائے۔ کوئی ظلم اور جبر اب محنت کشوں کا راستہ نہیں روک سکتا۔ 9350 افراد اتنی بڑی قوت اور طاقت ہیں کہ یہ سب ڈی چوک پہنچ جائیں تو حکمرانوں کا کریاکرم خود بخود ہوجائے گا۔ لیکن اس کے لیے جاگنا ہوگا بیدار ہونا ہوگا، ظلم کے شکنجہ سے آزاد ہونا ہوگا اور دوسروں کو بھی آزاد کرانا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں موجود پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام ودیگر جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ فوری طور پر اپنا کردار ادا کریں اور پاکستان کے اہم ترین قومی ادارے کو بچائیں ورنہ تاریخ انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔ دوسری جانب ملک بھر کی تمام ٹریڈ یونینز اور فیڈریشنز اس قومی مسئلہ پر سر جوڑ کر بیٹھے اور اسٹیل مل بحالی کی تحریک شروع کی جائے۔ ملک کے دیگر قومی ادارے پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، یوٹیلٹی اسٹور، او جی ڈی سی ودیگر ادارے کے ملازمین اسٹیل مل کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ اسٹیل مل بچانے کی تحریک میں شامل ہوجائیں ورنہ کل ان باری ہوگی اور امریکی ساہوکار ایک ایک کر کے قومی اداروں کو برباد کر کے انہیں نج کاری کی بھینٹ چڑھا دیں گے۔