چاند تک پہنچ گئے مگر …

1558

احمد حاطب صدیقی
ہم اُس وقت نویں جماعت میں تھے۔
یکایک ۲۱ جولائی ۱۹۶۹ء کو دنیا بھر میں ایک غلغلہ مچ گیا۔ ہر طرف غُل تھا کہ ۲۰ جولائی ۱۹۶۹ء کوامریکا چاند پر اُتر گیا۔ صاحب! ہمیں تو فوراً یقین آگیا۔ جو امریکا ہیرو شیما، ناگا ساکی اور ویت نام وغیرہ میں بد معاشی پر اُتر سکتا ہے وہ چاند پر کیوں نہیں اُتر سکتا؟
مگر بہت سے لوگ دُبدھا ہی میں پڑے رہے۔ سو، آج تک پڑے ہوئے۔
۱۵ فروری ۲۰۰۱ء کو امریکا ہی کے فاکس ٹی وی نے ایکا ایکی اپنے خوابِ سرشاری سے اُٹھ کر اپنی نشریات میں یہ ہنگامہ خیز سوال اُٹھا دیا کہ: ’’کیا ہم واقعی چاند پر اُترے ہیں؟‘‘
اور جواب میں کہا:
’’نہیں! بس لندن کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیا گیا۔ یوں امریکا نے پوری دنیا کو بے وقوف بنایا اور انسان کے چاند پر اُترنے کا فقط ڈراما رچایا۔ اپالو-۱۱ جو ۱۶؍ جولائی ۱۹۶۹ء کو خلا میں بھیجا گیا تھا آٹھ دن زمین کے مدار کے گرد چکر لگا کر واپس آگیا‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس سے قبل ۱۹۹۴ء میں چھپنے والی، Andrew Chaikin کی ایک کتاب “A Man on the Moon” میں بھی بتایا گیا تھا کہ:
’’ایسا ایک ڈراما رچائے جانے کی منصوبہ بندی کی بازگشت دسمبر ۱۹۶۸ء میں بھی سنی گئی تھی‘‘۔
مگر خیر… یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس قضیے سے بس مستقبل کے مؤرخ اور محقق کی روٹی پانی کا بندوبست ہو گیا ہے۔ ہم ان دکھیاروں کے پیٹ پر لات کیوں ماریں؟
اُس زمانے میں مشتہر کی جانے والی خبروں کے مطابق تین امریکی خلاباز نیل آرم اسٹرانگ، مائیکل کولنس اور ایڈوِن بز ایلڈرن، ۱۶؍ جولائی ۱۹۶۹ء کو، اپالو گیارہ میں چاند کے مشن پر روانہ ہوئے۔ چار دن بعد چاند تک پہنچ گئے۔ نیل آرم اسٹرانگ اور مائیکل کولنس، خلائی شٹل سے الگ ہوجانے والی چاند گاڑی ’’ایگل‘‘ میں بیٹھ کر چاند پر اُترے، جب کہ ایلڈرن صاحب خلائی جہاز میں بیٹھے بیٹھے چاند کے مدار کے گرد چکر لگاتے اور تصویریں بناتے رہے۔ (اُس زمانے میں ابھی ’’سیلفی‘‘ کا رواج نہیں پڑا تھا۔)
۲۰ جولائی ۱۹۶۹ء کو نیل آرم اسٹرانگ صاحب کو چاند پر سب سے پہلا قدم رکھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے پیچھے پیچھے مائیکل کولنس اُترے۔ خبروں کے مطابق دونوں صاحبان تین گھنٹے تک چاند پر مٹر گشت کرتے رہے۔ واپس آتے ہوئے اپنے جوتے وہیں چھوڑ بھاگے اور چاند سے اُس کی مٹی اُٹھا کر رفو چکر ہوئے۔ دونوں خلاباز ۲۴ جولائی ۱۹۶۹ء کو اپنے تیسرے ساتھی سے جاملے اور بالآخر بخیریت زمین پر اُتر آئے۔ یوں دنیا بھر میں امریکا کی ’’واہ واہ‘‘ یا بہ الفاظِ پنجابی ’’بلّے بلّے‘‘ ہوگئی۔
انسان کے چاند تک پہنچ جانے کی خبر سے خلائی سائنس و ٹیکنالوجی ہی کی دنیا میں نہیں، شعر و ادب کی دنیا میں بھی ایک بھونچال سا آگیا۔ اس اطلاع سے کسی کی آگہی میں اضافہ ہوا کسی کی غفلت میں۔ کسی کے ایمان میں ترقی ہوئی اور کسی کو ہمتِ کفر مل گئی۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ اس موقع پروالدِ محترم (مولوی ابوالحسنات صدیقی مرحوم) نے ایک قطعہ کہا تھا:
اِن خلا بازوں کی حرکت دیکھیے
چھوڑ آئے اپنا جوتا چاند پر
اے پجاری چاند کے، کچھ ہوش کر!
جا پڑا ہے کیسا جوتا چاند پر
اسی ضمن میں رئیس امروہوی مرحوم کا یہ قطعہ بھی یاد آگیا:
گنجِ زر کھول دیے دولتِ امریکا نے
کُرّۂ ماہ کا سودا جو سمایا سر میں
چاند کی سطح سے اے دوست خلائی فاتح
خاک لائے ہیں کوئی ڈیڑھ ارب ڈالر میں
اس فرضی یا حقیقی تسخیر ماہ کے بعد کہے گئے اشعار تو بے شمار ہیں۔ آج تک کہے جارہے ہیں۔ مگر روز مرّوں اور محاوروں میں بھی ایک تازہ بہار آگئی۔ وہ دانشور جو قوم کو طعنے تشنے دیتے رہنے ہی کو اپنی طرف سے ایک قیمتی ’’قومی خدمت‘‘ تصور فرماتے ہیں، اُن کے بے عمل ہاتھوں میں بھی، اس خبر پر ’’ایمان بالغیب‘‘ لے آنے کے بعد ایک نیا ہتھیار آگیا۔ بات بات پر کہا جانے لگا:
امریکا والے چاند سے ہو کر بھی آ گئے
ہم کو تو گولیمار کا رستہ نہیں ملا
ایسا ہی ایک قصہ اُس وقت بھی ہوا جب ہم ’’ادارۂ فراہمی ٔ برق کراچی‘‘ المعروف بہ KESC میں زیر تربیت تھے۔
(گُلِ نو شگفتہ کو کیا خبر… کہ کسی زمانے میںKDA ’’ادارۂ ترقیاتِ کراچی‘‘ کہلاتا تھا۔ KMC کو ’’بلدیہ کراچی‘‘ کہا جاتا تھا، میونسپل کارپوریشن جب میٹروپولیٹن کارپوریشن بن گئی تو اسے ’’بلدیۂ عظمیٰ کراچی‘‘ کہا جانے لگا اور KW&SB کو ہم ’’ادارۂ فراہمی و نکاسیِ آب‘‘ کہا کرتے تھے۔)
اس برقی ادارے میں، مشہور شاعر و ادیب، شیخ ایاز مرحوم کے چار بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہمارا باس تھا۔ یہ ۱۹۷۶ء کا ذکر ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی شیخ ایاز مرحوم اپنے الحادی نظریات سے تائب نہیں ہوئے تھے۔ یہ مرحلہ تو یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک کا بت پاش پاش ہوجانے کے بعد پیش آیا۔ شیخ ایاز کے صاحبزادے، محض نماز پڑھنے کی پاداش میں، اِس گنہگار کو ’’مولوی‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ایک روز چیف انجینئر صاحب اپنی مخصوص زبان اور اپنے مخصوص لب و لہجے میں، بھری محفل میں گویا ہوئے:
’’او مولوی! دیکھ۔ انسان چاند پر پہنچ گیا ہے اور تیرا مُلّا ابھی تک استنجا کے مسائل ہی بیان کر رہا ہے‘‘۔
حاضر باشوں نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور بڑی حقارت سے اس حقیر کی طرف دیکھا۔ ایک ساتھی نے پسلی میں کہنی مار کر کہا:
’’اس موقع پر چپ ہو جانا ٹھیک نہیں۔ جواب دو‘‘۔
شہ پا کر عرض کیا:
’’شیخ صاحب! انسان چاند پر پہنچ تو گیاہے، مگرکیا اس خوشی میں اس نے پیشاب پاخانہ کرنا ہی چھوڑ دیا؟‘‘
اس پر ہمارے ساتھیوں نے بھی ایک زبردست قہقہہ لگایا۔ سو، اس قہقہاتی قوت کی کمک سے مزید توانا ہوکر ہم نے یہ پُر عزم اعلان کیا:
’’جب تک انسان پیشاب پاخانے کی لت میں مبتلا رہے گا، ہمارا مُلّا اس لت پت انسان کو پاک کرنے کے لیے استنجا کے مسائل بیان کرتا رہے گا‘‘۔
یہ اعلان سنتے ہی شیخ صاحب نے فوراً ہمیں بوائلر کنٹرول پینل کے انسٹرومنٹ چیک کرنے کے لیے روانہ کردیا۔
آج چوالیس برس بعد یہ قصہ یاد آنے کا باعث ایک دلچسپ واقعہ بنا۔
اس وقت جب کورونا کی وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے عالمی سطح پر بار بار یہ ہدایات دی جا رہی ہیں کہ ہاتھوں کو بار بار دھوتے رہو۔ ہروقت اپنا (ہی) منہ دھو رکھو۔ بازوؤں کو کہنیوں تک دھویا کرو۔ گھڑی گھڑی پاؤں دھوتے رہو… وغیرہ وغیرہ… تو ان حالات میں ایک روز ہمارے ایک دوست کا فون آیا۔ یہ دوست ہمارے ملک کے ایک بڑے ماہر اور مُلّا ٹائپ ڈاکٹر ہیں۔ امریکا سے طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پھر کچھ عرصے تک ایک امریکی اسپتال میں امریکی ڈاکٹروں کے ساتھ طبی مشق آزمائی بھی کرتے رہے۔ پھر بالآخر پاکستان واپس آگئے اور یہاں آکر ایک مشہور اور مہنگے اسپتال میں دادِ طبابت دینے لگے۔
ڈاکٹر صاحب نے فون پر قہقہہ لگاتے ہوئے ہمیں اطلاع دی:
’’کل رات میرے ایک امریکی دوست (ڈاکٹر) نے بہت طویل وڈیو کال کی۔ وہ اپنے مریضوں کو حفظانِ صحت کے معیاری اُصول بتانے کے لیے مجھ سے وضو، استنجا اور غسل کے طریقے کی تفصیل پوچھتے رہے۔ یہ بھی دریافت کیا کہ تمہارے دین میں ایسا کرنا کب کب لازم ہوتا ہے؟‘‘
اللہ جانے اب شیخ صاحب کہاں ہوں گے؟ کہیں ملتے تو ہم اُن کو مطلع کرتے کہ:
’’لو بھئی شیخ جی! چاند تک پہنچ جانے کا دعویٰ کرنے والے بھی اب اکیسویں صدی میں آ کر ہمارے ’’مُلّا‘‘ سے استنجا کے مسائل سیکھ رہے ہیں‘‘۔
ورنہ ان ’’چاند ماری کرنے والوں کو بھلا ’’ڈرائیکلیننگ‘‘ کرنے کے سوا آتا ہی کیا ہے؟