رسائل ومسائل

423

محمد رضی الاسلام ندوی

نماز عصر کے بعد فرض نماز کی قضا
سوال: کیا عصر کی نماز کے بعد کسی چھوٹی ہوئی فرض نماز کی قضا کی جاسکتی ہے؟
جواب: ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
’’عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے‘‘۔ (متفق علیہ)
حدیث کے الفاظ میں اگرچہ عموم پایا جاتا ہے، لیکن محدثین نے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس سے مراد نفل نماز ہے۔ حدیث میں فجر کی نماز کے بعد سے سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سے سورج ڈوبنے تک نوافل پڑھنے کی ممانعت آئی ہے۔
جہاں تک کسی چھوٹی ہوئی نماز کی قضا کا تعلق ہے تو وہ اس وقت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اس وقت نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے اور سجدۂ تلاوت کیا جاسکتا ہے۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے: ’’مکروہ اوقات میں چھوٹی ہوئی نماز کی قضا نماز جنازہ اور سجدۂ تلاوت جائز ہے‘‘۔
٭…٭…٭
ایک حدیث کی تحقیق
سوال: ایک حدیث نظر سے گزری کہ ’’جس شخص کی موت جمعے کے دن یا رات میں ہوگی وہ قبر کے فتنے سے محفوظ ہوگا‘‘۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس سے جمعے کی فضیلت کا اثبات مقصود ہے؟
جواب: اس مضمون کی روایت بعض کتب حدیث میں ان الفاظ میں مروی ہے۔ ترجمہ: ’’جس شخص کی موت جمعے کے دن یا رات میں ہوگی وہ قبر کے فتنے سے محفوظ رہے گا‘‘۔
اس کی تخریج امام احمد اور امام ترمذی نے عبداللہ بن عمروؓ کی سند سے کی ہے۔ بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ انس اور جابرؓ سے بھی مروی ہے۔ انسؓ کی روایت ابویعلیٰ نے اور جابرؓ کی روایت ابونعیم نے نقل کی ہے۔
علامہ البانیؒ نے اپنی کتاب ’احکام الجنائز‘ میں لکھاہے کہ ’’اس کے تمام طرق کو دیکھتے ہوئے یہ حسن یا صحیح قرار پاتی ہے۔ لیکن علامہ شعیب الارناؤوط نے مسند احمد کی تعلیق میں اس پر ان کا تعاقب کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’اس کی سند ضعیف ہے اور اس کی جو شاہد روایتیں ہیں وہ بھی علّت سے خالی نہیں ہیں۔ اس لیے وہ اس روایت کی تقویت کے لیے کافی نہیںہیں‘‘۔ امام ترمذیؒ نے بھی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ’حدیث غریب‘ ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے (منقطع ہے) ۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے شرح بخاری میں یہ روایت نقل کرکے لکھاہے: ’’اس کی سند میں ضعف پایا جاتا ہے اور ابویعلیٰ کی روایت کردہ حدیثِ انس کی سند اور بھی ضعیف ہے‘‘۔
امام بخاریؒ نے ایک باب قائم کیا ہے: ’باب موت یوم الاثنین‘ (دوشنبے کے دن وفات کا بیان)۔ اس میں بیان کیا ہے کہ ’’رسول اللہؐ کی وفات دوشنبے میں ہوئی تھی اور ابوبکرؓ کی وفات بھی‘‘۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جمعے کے دن وفات کی فضیلت میں مروی روایت ان کے معیار پر پوری نہیں اْترتی۔
خلاصہ یہ کہ جس روایت کے بارے میں سوال کیاگیا ہے وہ صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ منقطع ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی ضعیف ہے اور اس مضمون کی دیگر روایتوں کے بھی ضعیف ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی تقویت پیدا نہیں ہوتی۔
٭…٭…٭
دورانِ عدّت عورت کا گھر سے باہر نکلنا
سوال: ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ عدّت گزار رہی ہے۔ اس دوران اسے معلوم ہوا کہ اس کا دیور اس کے شوہر کی زمین جائیداد کورٹ سے اپنے نام کرانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ کیا وہ جوابی کارروائی کے لیے دورانِ عدت کورٹ جاسکتی ہے؟
جواب: دورانِ عدّت عورت اپنی ضروریات کے لیے دن میں گھر سے باہر جاسکتی ہے۔ جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوگئی۔ انہوں نے دورانِ عدت اپنے کھجور کے درخت سے پھل اْتارنے کی غرض سے باہر جانا چاہا تو ایک آدمی نے انہیں سختی سے منع کیا۔ وہ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس سلسلے میں دریافت کیا۔ آپؐ نے فرمایا:
’’کیوں نہیں، تم اپنے کھجور کے درخت سے پھل توڑنے کے لیے جاسکتی ہو۔ اس طرح ممکن ہے کہ تم صدقہ کرسکو یا اور کوئی عمل خیر انجام دو‘‘۔ (مسلم، ابوداؤد)
یہی حکم شوہر کے انتقال کے بعد عدت گزارنے والی عورت کا ہے۔ الموسوعہ الفقہیہ کویت میں ہے:
’’فقہا کی رائے ہے کہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو وہ دورانِ عدت رات میں گھر سے باہر نہ نکلے، البتہ دن میں اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔
٭…٭…٭
خلع کے بعد اسی شوہر سے نکاح
سوال: میاں بیوی میں تنازع ہونے کے بعد بیوی نے خلع حاصل کرلیا اور وہ عدت گزار رہی ہے۔ بیوی کو سمجھایا بجھایا گیا تو وہ پھر اسی شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوگئی ہے۔ اب کیا کرنا ہوگا؟ کیا عدت مکمل ہونے کا انتظار کیا جائے گا؟
جواب: خلع کے بعد عورت کا تعلق شوہر سے باقی نہیں رہتا۔ وہ اس کے لیے اجنبی بن جاتی ہے۔ عدت مکمل ہونے کے بعد وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ اسی طرح اس کا نکاح سابق شوہر سے بھی ہوسکتاہے۔ دوسرے مرد سے نکاح کے لیے عدت کا مکمل ہونا ضروری ہے، لیکن سابق شوہر سے نکاح دورانِ عدت بھی ہوسکتا ہے۔ بس نیا نکاح نئے مہر کے ساتھ ہوگا۔