صغیرہ گناہ

892

علامہ یوسف القرضاوی

کبائر کے بعد ان محرمات کی باری آتی ہے جن کی حرمت قطعی ہوتی ہے۔ انہیں شارع نے لمم محقرات (حقیر سمجھے جانے والے گناہ) کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔
یہ ایسے گناہ ہیں جن سے شاید ہی کوئی شخص محفوظ رہا ہو۔ عموماً کسی نہ کسی دَور میں آدمی ان میں مبتلا ہوا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کو کبائر سے الگ کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے گناہ ہوتے ہیں جو پنج وقتہ نمازوں، نماز جمعہ، رمضان کے روزوں اور اس میں قیام الیل سے بخش دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے: ’’پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک، یہ سارے اعمال اس دوران کے گناہوں کے لیے کفارّہ بنتے ہیں، بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے‘‘۔ (مسلم)
اور صحیحین میں ہے ’’تم مجھے یہ بتائو کہ تم میں کسی کے گھر کے سامنے ایک نہر ہو اور وہ دن میں پانچ مرتبہ اس میں نہائے، کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل رہ جائے گا؟ یہی حال پانچ نمازوں کا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹاتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
صحیحین ہی میں ایک روایت ہے: ’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کیے جائیں گے‘‘۔
اور ’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام الیل کیا اس کے پچھلے گناہ (گناہِ صغیرہ) معاف کیے جائیں گے‘‘۔ (متفق علیہ)
بلکہ قرآن نے تو یہ بھی بیان کیا ہے کہ آدمی صرف اتنا کرے کہ کبائر سے بچے تو صغائر کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی معاف کر دے گا۔ فرمایا: ’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے‘‘۔ (النساء: 31)
رہا کبائر کا معاملہ تو انہیں توبۃ النصوح کے سوا کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی۔
صغائر کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان ان میں عام طور پر مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب اپنے بندوں میں سے محسنین اور اچھے لوگوں کا ذکر کیا تو ان کی صرف یہ صفت بیان کی کہ وہ کبائر اور فواحش سے اجتناب کرتے ہیں۔ سورہ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جو کچھ اللہ کے ہاں ہے، وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی۔ وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں، جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آجائے تو درگزر کرجاتے ہیں‘‘۔ (الشوریٰ: 36-37)
سورۂ نجم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’زمین اور آسمان کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے۔ تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اوران لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا، جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں، اِلّا یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہو جائیں۔ بلاشبہ تیرے رب کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے‘‘۔ (النجم: 31-33)
یہ ان لوگوں کی صفت ہے جنہوں نے احسان کیا اور جن کے لیے حسنیٰ ہے۔ یعنی وہ کبائر اور فواحش سے اجتناب کرتے ہیں، سوائے لمم کے۔ سلف کی ایک بڑی جماعت سے لمم کی تعریف میں روایت کیا گیا ہے کہ یہ کسی وقت گناہ کی طرف مائل ہونا اور دوبارہ اس کی طرف نہ لوٹنا ہے، خواہ وہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو۔
ابوصالحؒ فرماتے ہیں: مجھ سے اللہ تعالیٰ کے قول اللمم کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے کہا کہ یہ وہ گناہ ہیں کہ آدمی ایک بار کرے اور دوبارہ ان کے پاس نہ جائے۔ پھر میں نے ابن عباسؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ایک معزز فرشتے نے اس میں تیری مدد کی ہے۔
جمہور کا مذہب یہ ہے کہ لمم ان گناہوں کو کہتے ہیں جو کبائر کے علاوہ ہوں۔ ابن عباسؓ سے بھی زیادہ صحیح روایت یہی ہے۔ جیسا کہ ان سے صحیح بخاری میں مروی ہے: میں نے لمم کے اس سے زیادہ قریب کوئی چیز نہیں دیکھی جو ابوہریرہؓ نے نبیؐ سے روایت کی ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کے لیے ہر چیز میں زنا کا اپنا حصہ رکھا ہے، جسے وہ ضرور پائے گا۔ آنکھ کا زنا دیکھنا، زبان کا زنا بولنا ہے۔ نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور فرج اس کی تصدیق یا تکذیب کرتا ہے‘‘۔ مسلم نے بھی اسے روایت کیا ہے، اس میں الفاظ یہ ہیں: ’’آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا سننا، زبان کا کلام کرنا، ہاتھ کا پکڑنا اور پائوں کا چلنا ہے۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں: صحیح قول جمہور کا ہے اور وہ یہ کہ لمم چھوٹے گناہوں کو کہتے ہیں، جیسے دیکھنا، چْھونا، چومنا وغیرہ۔ یہ جمہور صحابہ اور تابعین وغیرہ کا قول ہے۔ ابوہریرہؓ، ابن مسعودؓ، ابن عباسؓ، مسروقؒ اور شعبیؒ کا یہی قول ہے۔ یہ قول ابوہریرہؓ اور ابن عباسؓ کے اس قول کے خلاف نہیں ہے جو اْن سے دوسری روایت میں منقول ہے، جس کے مطابق لمم یہ ہے کہ گناہِ کبیرہ کی طرف عارضی طور پر متوجہ ہو اور پھر اس کی طرف دوبارہ نہ آئے۔ لمم کا لفظ یا تو دونوں کو متناول ہوگا اور دونوں باتیں درست ہوں گی۔ یا یہ کہ ابوہریرہ اور ابن عباسؓ نے اس شخص کے گناہ کو بھی لمم میں شامل کیا ہے جو ایک بار گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس پر اصرار نہیں کرتا، بلکہ زندگی میں ایک بار ہی اس سے صادر ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات کو دیکھا ہے کہ جس شخص نے گناہِ کبیرہ کا بار بار ارتکاب کیا ہوتا ہے، اس کے حق میں وہ بڑا ہو کر عظیم اور سخت ہو جاتا ہے۔ یہ صحابہ کرامؓ کی فقاہت اور ان کی علمی گہرائی کا ایک نمونہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے ایک دو مرتبہ درگزر کر لیتا ہے۔ البتہ خوف اس شخص کے بارے میں ہے جو گناہ کو اپنے لیے عادت بنالے۔ اور اس کا کئی کئی بار ارتکاب کرے۔