غلطی ہائے تلفظ مت پوچھ

1031

پچھلے کئی روز تو کورونا کی دہشت کی نظر ہوگئے قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی خبروں نے ہوش اڑا دیے تھے کیفیت یہ تھی کہ بقول مرزا غالب
تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر ہی مرا رنگ زرد تھا
گزشتہ دنوں اسی ضمن میں ملک کے معروف نفسیاتی امراض کے ماہر جناب ڈاکٹر عبدالواسع شاکر کا بیان نظر سے گزرا تھا کہ سانپ کے کاٹے سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے اس کی دہشت سے مر جاتے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے اور بقول ناسخ کہی جاتی ہے منہ تک آئی بات۔
راقم کی زندگی شعبہ تعلیم ہی سے وابستگی میں گزری ہے چناں چہ اکثر معیار تعلیم کی پستی اور اُس کے قہقہہ بار مظاہروں کا ذکر بھی فکر مندی اور مضحکہ خیزی کے ملے جلے جذبات سے ہوتا رہتا تھا۔ ایک بار ایک دوست نے شعبہ طب (میڈیسن) عرف عام میں ڈاکٹری کے طلبہ کی علمیت کے اظہار کا یہ واقعہ سنایا کہ جب ایک امتحان کے موقع پر بیرونی پروفیسر نے شاگرد سے سانپ کے کاٹے کے علاج کے بارے میں سوال کیا تو جواب معلوم نہ ہونے کی بنا پر اُس نے اپنے مقامی استاد کی جانب کن اکھیوں سے دیکھا انہوں نے دونوں ہاتھوں سے کتاب کھولنے کا اشارہ دیا یعنی کتاب میں دیکھا جائے کہ کس قسم کے سانپ کے زہر کا کیا توڑ ہے۔ اب شاگرد کے ذخیرہ علمی میں اس اشارے کے اصل فہم کا گزر نہیں ہوا تھا چناں چہ اُس نے کتاب کھولنے کے اشارے کا جو مطلب سمجھا وہی ممتحن صاحب کو بتلادیا کہ جناب! قرآن شریف کھول کر اُسے یٰسین شریف سنائی جائے گی۔
چلیے یہ تو سانپ کے کاٹے کے حوالے سے لطیفہ درمیان میں آگیا۔ ذکر کورونا کا تھا جس کی دہشت میں اس قسم کی اطلاعات سے کمی آئی کہ جن افراد کی رحلت ہوئی اُن میں خاصی تعداد ان کی تھی جو پیش ازیں ہی دیرینہ امراض کا شکار تھے اور دو افراد تو وہ تھے جن کے انتقال کے بعد ان کے ٹیسٹ کا نتیجہ منفی (Negative) آیا۔ تو وہ فکر مندی کی کیفیت کہ: روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں جب کورونا کا ذکر پڑھتا ہوں۔
قدرے کم ہوئی تو ظرافت نے انگڑائی لی اور ذہن کو فکر مندی سے ذرا فرصت ملی تو کالم کے موضوع کے حوالے سے سابقہ کالم میں تحریر شدہ محترم انور مسعود صاحب کی نظم کا عنوان یاد آیا جو تھا ’’بوٹی کیمہ، کیمہ بوٹی‘‘ سوچا اس ذہنی فراغت کا مصرف تلفظاتی لطائف ہی کو کیوں نہ بنایا جائے۔ اب یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ بعض زبانوں میں حروف کی بعض آوازیں نہیں ہوتیں مثلاً عربی جو دنیا کی بلیغ ترین زبان ہے اور جس کے بولنے والے اپنے مقابلے میں دیگر زبانیں بولنے والوں کو عجمی یعنی گونگا کہتے ہیں اُس میں ہندی کے حرف پ چ ڈ ڑ گ کی آوازیں نہیں ہیں اور دوسری طرف عربی کے ’’ص‘‘ کی آواز (جو اونٹ کے بلبلانے سے ماخوذ ہے) دنیا کی کسی زبان میں موجود نہیں اسی بنا پر عربی (ر پر زبر پڑھا جائے ورنہ غلطی جیسی غلطی ہوجائے گی) کو لُغَتٔہ الضاد کہا جاتا ہے۔ تو جناب جب راقم حج یا عمرے (صحیح یاد نہیں ہے) پر مکہ مکرمہ میں تھا تو میرے بھانجے نے کہا ماموں جان آپ نے نوٹ کیا یہاں در و دیوار پر کیسی بے بسی طاری ہے۔ میں نے اس عجیب جملے کی وضاحت چاہی تو اس نے دیواروں پر لگے ہوئے پیپسی کے اشتہارات پڑھوا دیے جہاں پ کی جگہ ب استعمال ہوتی تھی اس لیے پیپسی بے بسی کا شکار تھی۔ ابوظہبی میں راقم کچھ عرصے کے لیے ایک اسکول میں نگراں کے طور پر مامور تھا کہ اردو کے ایک استاد نے جن کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا۔ ایک پنجابی شاگرد کے لفظ ’’قیمہ‘‘ کے علاقائی تلفظ کے بارے میں ہنستے ہوئے جو کچھ کہا وہ بہتر ہے اُنہی کے لہجے میں سنیے فرمایا ’’حضت‘‘ وہ تو زبانی بولے مئیں‘ لفظ خیمہ کو لکھا بھی چھوٹے خاف سے خیمہ‘‘۔ اب میرے ہنسنے کی باری تھی جسے موصوف نے پنجابی بچے کے کھاتے میں ڈالا ہوگا۔ البتہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کے نام کے بارے میں لطف لیا جو انہی نے بتلایا کہ وہ چند روز قبل ایک ٹیکسی میں بیٹھے تو بلے پر ڈرائیور کا نام دیکھ کر حیران ہوگئے۔ البتہ بقول ان کے انہوں نے نام کے بارے میں وضاحت سے قبل پٹھان ڈرائیور سے اُس کے ملک اور بال بچوں کے بارے میں استفسار کیا اور پھر نام پر آئے کہ ’’حضت کا نام کیا ہے؟۔ اب چوں کہ ڈرائیور متعدد بار اس سوال کا حدف رہ چکا ہوگا اس لیے اس نے کمال بیزاری سے کہا ’’نام تو گلاب خان ہے پَرادِر کا لوگ گ نئیں بولتا اس کو جیم بولتا ہے اس لیے جلاب خان لکھ دیا ہے‘‘۔ اب پ مُبدّل بہ سب ہوجانے کی ایک اور مثال سننے کو ملی جس کے مطابق ایک دوست نے دوسرے سے انگریزی میں کہا۔ لیٹ اس بارک ہییر اینڈ گوٹو برے ان دا ماسک (let us park here and prey in the mosque) انگریزی کا لفظ پارک رکنا بارک (بھونکنا) اور پرے (نماز ادا کرنا بِرے (رینکنا) بن گیا۔ حرم میں تو چوں کہ دنیا کی ہر زبان اور لہجے والے افراد والہانہ اپنی زبان میں اپنے جذبات کا بے محابہ اظہار کرتے ہیں چناں چہ وہاں آپ کو اللہ اَچبر بھی سننے کو مل سکتا ہے کہ مصری حضرات ج کی جگہ گاف استعمال کرنے لگے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی عرب بھی چناں چہ میں نے جب سعودی ٹیکسی والے سے پوچھا کہ وہ ٹھیرے گا کہاں تو اس کا جواب تھا ’’موگف‘‘ یعنی موقف (اڈا)۔
یہ قرآن مجید ہی کا اعجاز ہے 14 سو سال میں ہونے والی اس نوع کی تبدیلیوں کے باوجود دنیا بھر میں زبان بولنے والے کو بچپن ہی سے قرآن قرآنی زبان ہی میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں ادنیٰ تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔
دور کیوں جائیے ہمارے اپنے ملک میں لہجوں اور تلفظ کا فرق ہے۔ میرے پنجابی احباب چوں کہ کسی اعتبار سے زیر ہونا نہیں جانتے اس لیے عنایت کے عین پر ہمیشہ زبر ہی لگاتے ہیں اور جہاں تک ق اور ک کا تعلق ہے تو وہ ’’ق‘‘ کو بڑا کاف ہی کہتے ہیں چناں چہ ہمارے قومی شاعر بھی وہاں ’’اکبال‘‘ ہی کے نام سے جانے جاتے ہیں اور تعجب نہیں کہ وہ خود بھی اپنے نام کا یہی تلفظ کرتے ہوں۔ تلفظ کے بارے میں میری اپنے پنجابی بے تکلف احباب سے ان کی اس ادا یا اختراع پر بھی گفتگو ہوئی کہ وہ لفظ کے درمیانی حرف ف پر جزم لگا کر اس کا تلفظ لفظ کرتے ہیں چلیے سید حرمی لفظ کے درمیانہ حرف کو آپ شوق سے لفظ کہہ کر جزم سے گریز کیجیے اور زبر کو زبردستی سے نوازیے۔ لیکن لفظ غلط کے درمیانی حرف ل کے زبر کو جسے جزم سے بے دخل کیا تھا اور زبر سے سرفراز کیا تھا اسی زبر کو لفظ غلط کے درمیانہ لفظ ل سے بے دخل کرکے اُسے غلط کردیا یہ الفاظ سے ضدم ضداً ہے کہ جہاں جذم ہوگا اس پر زبر لگائیں گے اور جہاں زبر ہے اسے جزم یعنی الٹا کام کریں گے جب کہ الٹے کام کو بھی ہنر مندی سے کیا جائے تو وہ عیب کی جگہ ہنر بن جاتا ہے جس مثال کسی مہتاب رائے کا نام ہے جو اس طرح بھی لکھا جاسکتا ہے۔ ’’ہم الٹے بات الٹی یار الٹا‘‘ بقول میرتقی میر؎
شرط سلیقہ ہے ہر اکرام کیا
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
اب غلط اور لفظ کے حوالے سے آرٹس کونسل لاہور میں پیش کردہ ایک قطعہ
مرے اسکول سے لے جائیں اپنے بچے کو
جو کام دیں یہ اسے غلط سلط کرتا ہے
اسے تو ٹھیک سے اردو تلک نہیں آتی لفظ لفظ کا تو تلفظ یہ غلط کرتا ہے۔
سامعین نے واہ واہ کرکے لفظ تلفظ دہرایا اور مکرر کی تکرار کی لیکن جب میں نے لفظ اور غلط پر زور دے کر دوبارہ پڑھا تو اندیشہ تھا کہ داد میں بے کا اضافہ نہ ہوجائے لیکن خیر گزری کہ سامعین آپس ہی میں نظروں ہی نظروں میں کچھ کہہ کر خاموش ہوگئے۔