جسٹس فائز کیخلاف ریفرنس کی تجویز کس نے دی؟ عدالت عظمیٰ کا فروغ نسیم سے استفسار

433

اسلام آباد(نمائندہ جسارت+آن لائن) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں عدالت عظمیٰ نے وفاق کے وکیل فروغ نسیم سے تندوتیز سوالات کیے اور ریفرنس کی تجویز دینے والے کا نام بتانے پر زوردیا گیا۔دوران سماعت فروغ نسیم نے کئی سوالات پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے کریز سے باہر نکل کر شاٹ کھیلنے پر ریفرنس بنا۔جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے دوران ججز نے ریمارکس دیے کہ جسٹس فائز کے خلاف مقدمہ ایف بی آر یا نیب میں بھیجنے کے بجائے مس کنڈکٹ کے لیے صدر کو بھیجنے کا آئیڈیا کس کا تھا،اثاثہ جات ریکوری یونٹ اپنا کام کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا،اس کیس میں ٹیکس کی بھی خلاف ورزی نہیں ہے، اگر ہے تو اس خلاف ورزی کو ثابت کریں،اگر یہ پراپرٹی لوٹی گئی دولت سے بنائی گئی تو اے آر یو اس پراپرٹی کو بیچ کر پیسہ واپس کیوں نہیں لایا،عدالت کے سوال ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں ۔عدالت نے قرار دیا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ معاملہ کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی لارجر بنچ نے کی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں منی لانڈرنگ کا الزام عاید کیا گیا،جب بیرون ملک جایداد بنائی گئی اس وقت منی لانڈرنگ کا مذکورہ قانون ہی نہیں تھا،منی لانڈرنگ کا قانون میں ذکر تو 2015ء اور 2016 ء میں آیا،بتایا جائے معاملہ صدر کو بھیجنے کا آئیڈیا کس کا تھا؟منی لانڈرنگ مس کنڈکٹ ہے یہ کیا بات کر رہے ہیں،اس غلطی کے ساتھ معاملہ صدر کو بھیجا گیا، کیا صدر نے اس پر آزاد ذہن کا استعمال کیا؟ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ صدر کی رائے قانون کے مطابق نہیں تھی تو ریفرنس کاغذ کا ٹکڑا رہ جائے گا،حکومت میں موجود کسی روشن ذہن نے یہ مشورہ دیا کہ یہ معاملہ ٹیکس کا نہیں بلکہ منی لانڈرنگ کا ہے، یہ سنگین نوعیت کی غلطی معلوم ہوتی ہے، اے آر یو کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کی وکالت کون کر رہے ہیں ، آرٹیکل 209 کے اختیارات بڑے منفرد ہیں، صدر مملکت کا کردار جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے پر بڑا اہم ہے،یہ تاثر نہ دیا جائے کہ جج احتساب سے بالاتر ہے، ایف بی آر قانون کے تحت اپنی کارروائی کا مجاز تھا ، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اے آر یو کو وزارت داخلہ کے ماتحت ہونا چاہیے تھا ،ایف آئی اے کے پاس کرپشن تحقیقات کا اختیار ہے ،وزیر اعظم ریاستی اداروں کو کرپشن کی تحقیقات کا نہیں کہہ سکتے، وزیر اعظم ایک نجی شخص کو بلا کر ذمے داری دے دیتے ہیں ۔عدالت عظمیٰ نے بعد ازاں معاملہ کی سماعت سوموار 7جون تک کے لیے ملتوی کر دی ہے ۔