حج کبھی نہ رکا (آخری حصہ)

498

جامعۃ العین۔ سکھر
جب سے اسلام کی روشنی نمودار ہوئی، اس سال یعنی 317ھ کے سوا کبھی حج نہ رکا۔لیکن مسعودی کے بارے میں کہاجا سکتا ہے کہ یہ چوتھی صدی کی شخصیت ہیں، اور لازمی بات ہے کہ ان کی گفتگو اپنے دور تک بلکہ کتاب کی تصنیف تک ہی کی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ ’’مجیر الدین العلیمی عبد الرحمن بن محمد بن عبد الرحمن المقدسی الحنبلی‘‘ کو سنیں، جن کا تعلق دسویں صدی ہجری سے جڑا ہوا ہے اور ان کی کتاب ’’التاریخ المعتبر‘‘ بھی دسویں صدی ہجری کی بنیادوں تک پہنچی ہوئی ہے، ان کا کہنا بھی بالکل ایسا ہی ہے: اسلام کے آنے کے بعد اس ایک سال کے سوا کبھی حج نہیں رکا۔
یعنی مسعودی کے مطابق چوتھی صدی تک اور مجیر الدین علیمی کے مطابق دسویں صدی ہجری یعنی سولہویں صدی عیسوی کی ابتداء تک حج کبھی بھی معطل نہ ہوا سوائے 317ھ مطابق 930ء کے۔ اور اگر معاملے کی مزید باریک بینی سے دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ حج کا مکمل تعطل اس سال بھی نہیں ہوا والحمدللہ حمداً کثیرا۔۔۔
مسلمان کہلانے والے زندیقوں نے عین مسجدِ حرام میں حاجیوں کو قتل کیا۔ لیکن وہ لوگ مرنے سے ڈرنے والے نہیں تھے، وہ جانتے تھے کہ حرمینِ طیبین کی موت شہادت ہے، اور ظلماً قتل تو ہر جگہ شہادت ہے، پھر حرم محترم میں مرنے سے کون ڈرے گا؟؟ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ احترامِ حرم میں جوابی کارروائی نہیں کی گئی، لیکن قتل کے ڈر سے کسی شخص نے اپنے معمولات میں کوتاہی نہیں آنے دی۔ علی بن بابویہ صوفی طوافِ کعبہ میں مصروف ہیں، تلواریں انہیں نوچ رہی ہیں اور ان کی زبان پہ یہ شعر جاری ہے:
تری المحبّین صَرعَی فی دیارہم
کَفِتیۃ الکہفِ لا یدرون کم لبثوا
ان بد بختوں نے 7 یا 8 ذو الحجہ کو حملہ کیا، ابھی ایک یا دو دن گزرے کہ بدبخت ابو طاہر قرامطی نشے میں دھت ہو کر ایک بار پھر مسجدِ حرام میں داخل ہوتا ہے، کیا دیکھتا ہے کہ طوافِ کعبہ پھر سے جاری ہے۔۔۔!!!
بدبخت تلوار نکال لیتا ہے اور جو ہاتھ آئے اسے شہید کرنا چاہتا ہے، ایک طائف کو شہید کر کے رکا پھر آیہ مقدسہ کا مذاق اڑاتے ہوئے چلایا:تم لوگ تو کہتے تھے کہ جو یہاں آ گیا اسے امن مل گیا، کہاں ہے امن؟ دیکھو میں نے اس شخص کو ابھی تمہارے سامنے مار ڈالا ہے؟ راوی کا کہنا ہے کہ ایک لمحے مجھے ڈر لگا کہ اگر میں نے اس کی بات کا جواب دیا تو یہ بدبخت مجھے بھی مار ڈالے گا، لیکن اگلے ہی لمحے شوقِ شہادت غالب آ گیا اور میں اس کی سواری کے پاس آ گیا اور اس کی لگام پکڑ کر بولا:سن۔۔۔!! اس کا مطلب وہ نہیں جو تو کہہ رہا ہے، اس آیت کا مطلب ہے کہ جو یہاں آ جائے اسے امن دے دو۔۔!! یہ مانا کہ حاجیوں کے لیے یہ سال انتہائی کٹھن تھا، لیکن وہ حاجی ہم جیسے بہانہ تراش نہ تھے۔ ان کے پاس قوتِ ایمانی تھی اور دلوں میں شوقِ شہادت موجزن تھا، وہ موت کو حیات سمجھنے والے کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ:دن رات حرمینِ طیبین میں مرنے کی دعائیں التجائیں کرنے کے بعد جب یہاں مرنے کا موقع مل رہا ہے تو موت کے ڈر سے حج ہی چھوڑ دیا جائے۔۔۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ حجاج کرام کی اکثریت کو شہید کر دیا گیا، بہت ہی تھوڑے لوگ بچے جو حج کر سکے، لیکن پھر بھی حج ادا کیا گیا۔
اتحاف الوری میں ہے: اس سال نہ تو کسی نے عرفہ میں وقوف کیا اور نہ ہی دیگر اعمال حج کسی نے ادا کیے، سوائے تھوڑے سے لوگوں کے جنہوں نے حیلے بہانے سے اپنا حج بغیر امام کے مکمل کیا اور یہ لوگ پا پیادہ تھے۔ مروج الذہب میں ہے: تین سو سترہ ہجری میں قرامطہ لعنہم اللہ تعالیٰ کے اس حادثہ کی وجہ سے کسی کا حج مکمل نہ ہو سکا، سوائے تھوڑے سے لوگوں کے۔
کتبِ تاریخ کے مطابق اس سال تیس ہزار آدمیوں کو شہید کیا گیا، لیکن ان حالات میں بھی پختہ ایمان والوں نے موت کے ڈر سے حج کو معطل نہیں کیا۔ 357ھ مطابق 968ء میں ایسی وبا پھیلی کہ چند لوگوں کے سوا کوئی شخص مکہ تک نہیں پہنچ پایا۔ اور جو پہنچے ان کی بھی اکثریت حج کی ادائیگی کے بعد اس دنیا سے چل بسی، لیکن موت کا خوف حج کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں بن پایا۔ اس گفتگو کا مقصد حج کے تعطل کا جواز یا عدمِ جواز نہیں، مقصد محض اس بات کی وضاحت ہے کہ: آٹھویں سالِ ہجرت سے 1440ھ سمیت 1433 بار حج کا موقع آیا، وقت نے کئی کروٹیں بدلیں، امت نے مختلف نشیب وفراز دیکھے، حاجیوں کی تعداد کبھی کم رہی تو کبھی زیادہ، لیکن کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ حج مکمل طور پر معطل وموقوف ہوا ہو۔ ہم اپنے ربّ کریم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ رؤف ورحیم اپنے حبیبِ کریمؐ کے صدقے عالم کو اس وبا سے نجات بخشے، اور حج کا جو سلسلہ اب تک نہیں رکا، اس سال بھی اسے رکنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین