جسٹس فائز عیسیٰ نے بیرون ملک جائداد یں منی لانڈرنگ کر کے خریدیں، فروغ نسیم

292

اسلام آباد(نمائندہ جسارت،خبر ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کرلی ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میںعدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔دوران سماعت حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے بیرون ملک جائداد یں منی لانڈرنگ کر کے خریدیں۔ 10 اپریل 2019 کو وحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی۔ 8 مئی کو وحید ڈوگر نے لندن پراپرٹیز کے حوالے سے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو خط لکھا ، وحید ڈوگر نے خط میں لندن پراپرٹیز کی قیمت خرید اور مارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا۔ 1988 کے بعد برطانیہ میں ہر پراپرٹی کا ریکارڈ اوپن ہے، اے آر یو کو قانون کی سپورٹ حاصل ہے۔سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ غیرملکی جائداد کو ٹرسٹ کے ذریعے چھپایا گیا جس پر فروغ نسیم بولے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینک ٹرنزیکشنز کا ریکارڈ دکھا دیں، میرا ایک سطر کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی۔، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 میں آمدن 9285 روپے ظاہر کی۔2011 اور 2013 میں بچے تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیسے مہنگی پراپرٹی خرید سکتے تھے۔ بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا ،ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ ایف بی آر حکام کو خوف تھا جج کے خلاف کارروائی کی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے گا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سیکشن پانچ کے تحت جج کے لیے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائداد ظاہر کرے۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اْٹھایا ہے کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر کی درخواست پر مذکورہ جج کے خلاف تحقیقات کی اجازت کس نے دی۔اْنھوں نے یہ سوال بھی اْٹھایا کہ اثاثوں کی ریکوری کرنے والے ادارے یعنی اے آر یو نے اس شکایت پر فوری انکوائری کا آغاز کیسے کر دیا۔اْنھوں نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ آے آر یو نے اب تک کتنی عوامی شکایات پر عوامی عہدہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی سوال اٹھایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی جائداد کی تفصیلات انٹرنیٹ پر کیسے آ گئیں جبکہ مذکورہ جج کے خلاف شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو تو قاضی فائز عیسی کے نام کے سپلینگ بھی نہیں آتے۔عدالت نے ان درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ کیا شکایت کنندہ کی درخواست پر کارروائی کرنے سے پہلے ان کی ساکھ کا جائزہ لیا گیا تھا۔بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر کا ماضی کیا ہے اور وہ کس میڈیا گروپ کے لیے کام کر رہے ہیں۔اْنھوں نے کہا کہ وحید ڈوگر کی درخواست پر بڑی تیزی سے کام شروع کر دیا گیا۔جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو غیب سے معلومات ملتی تھیں۔ اْنھوں نے کہا کہ اس ملک میں بہت سے کام غیبی مدد سے بھی ہوتے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے وفاق کے وکیل سے مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب مانگے ہیں۔ریفرنس کی بدنیتی اور اے آر یو کی قانونی حیثیت کے بارے میں بتائیں۔اگر صدارتی ریفرنس میں نقائص ہوں تو کیا سپریم جوڈیشل کونسل از خود کارروائی کر سکتی ہے۔اگر کوئی کمزور یفرنس ہو جس کے پس پردہ مقاصد ہوں تو کیا کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے یا پھر کونسل کمی کوتاہی کو نظر انداز کر کے کارروائی کر سکتی ہے۔عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک کے لیے ملتوی کردی۔