ٹرمپ کا انتقام عروج پر ،مظاہرین کے ساتھ میڈیا بھی زیر عتاب

359

واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاہ فام شہری کی ہلاکت پر مظاہرہ کرنے والوں کو دھمکیاں دینے کے ساتھ اب میڈیا کو ہدف بنالیا۔ صدر ٹرمپ پہلے بھی سی این این اور دیگر ٹی وی چینلوں پر اپوزیشن کی حمایت اور وائٹ ہاؤس کی مخالفت کے نام پر اشتعال پھیلانے کے الزامات عائد کرچکے ہیں۔ تاہم اب ملک بھر میں پھیلنے والے احتجاج کی کوریج کرنے پر وہ ایک بار پھر امریکی میڈیا پر سیخ پا ہوگئے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے جرمن ڈائریکٹر کرسٹیان میہر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ مسلسل میڈیا کی تصویر خوفناک دشمن کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکا میں صحافیوں پر مجموعی طور پر 68حملے ریکارڈ کیے گئے۔ اگر اس تعداد میں پریس کے نمایندوں پر ہونے والے 26دیگر حملوں کو بھی شامل کر لیا جائے، تو ان کی تعداد 94ہوجاتی ہے۔ امریکا میں میڈیا پر تشدد، نفرت اور طنز اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح آزادی صحافت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی میڈیا مخالف پالیسی کے باعث دیگر مغربی ریاستوں میں بھی تقلید کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں آزادی صحافت پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ امریکا اور برازیل میں زباں بندی اور سینسر شپ کے واضح احکامات نہیں ہیں،تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر جیئر بولسونارو جعلی خبریں پھیلاکر اور سماجی تقسیم اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ کرسٹیان کا کہنا تھاکہ میڈیا کو قیاس آرائیوں پر مبنی نظام کا حصہ سمجھا جاتا ہے اوراس خیال کی ٹرمپ اور بولسونارو جیسے عوامیت پسند صدور نے جان بوجھ کر ترویج دی ہے۔ انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کو فروغ دینے کے لیے فسادات کے خوف سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر اور سرکردہ ریپبلکن سیاستدان پولیس تشدد کی مذمت کرنے میں بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ ادھر یورپ میں بھی صحافیوں اور میڈیا پر حملے بڑھ رہے ہیں۔ کونسل آف یورپ کے پلیٹ فارم کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق س کونسل کے 47رکن ممالک میں سے 25میں صحافیوں پر مجموعی طور پر 142 سنگین حملے کیے گئے۔ رپورٹ میں بلغاریا، رومانیا، ہنگری، پولینڈ، یونان، کروشیا، مالٹا اور برطانیہ میں میڈیا کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کیا گیاہے۔