حج کبھی نہ رکا

746

جامعۃ العین۔ سکھر
فتحِ مکہ اور فرضیتِ حج کے بعد سب سے پہلے جناب عتاب بن اسید کو امیرِ حج بننے کا شرف ملا۔ نویں سالِ ہجرت سیدنا ابوبکر صدیق اور دسویں سالِ ہجرت خود رسول اللہؐ حج کی ادائیگی کے لیے تشریف لائے جسے حجۃ الوداع کا نام دیا جاتا ہے۔ رسول اللہؐ کے وصال کے بعد عالم ِ اسلام کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہے۔ دوسری قوموں کی طرح اُتار چڑھاؤ تاریخ ِ اسلام کا حصہ رہا۔ لیکن حالات کیسے ہی نا سازگار کیوں نہ ہوئے، فریضہ حج عملِ پیہم کی طرح برقرار رہا۔ حالات کی سنگینیوں کے سبب بارہا ایسا ہوا کہ کبھی شام والے فریضہ حج کی ادائیگی سے محروم ہو گئے تو کبھی عراق والے، کبھی خراسان والوں کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو کبھی مصری حرمینِ طیبین کی زیارت سے محروم کر دیے گئے۔ کبھی اہلِ مشرق اس سعادت کو پانے میں ناکام رہے تو کبھی یہ حرماں نصیبی اہلِ بغداد کے حصے میں آئی۔
آٹھویں سالِ ہجرت سے تا حال 1433 بار حج کا موقع آیا، حالات کے نشیب وفراز سے حجاج کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہی، لیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ فریضہ حج مکمل طور پر معطل ہوا ہو اور کسی ایک شخص نے بھی حج ادا نہ کیا ہو۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر یہ باتیں چل رہی ہیں کہ: ’’فلاں فلاں برسوں میں حج مکمل طور پر معطل رہا، لہٰذا اگر سالِ رواں بھی معطل رہے تو کوئی بڑی بات نہیں‘‘۔ پھر کسی دوست نے ’’تحقیق‘‘ کا عنوان دے کر بالخصوص مجھے مخاطب کیا، پھر کچھ اصحابِ علم کو دیکھا کہ ’’اہم معلومات‘‘ کا عنوان دے کر وہ بھی اس قسم کی باتوں کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اور سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب ڈاکٹر علی جمعہ کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ اب تک 22 ایسے مواقع آئے کہ فریضہ حج ادا نہیں ہو پایا۔ اگر ڈاکٹر علی جمعہ تفصیلی گفتگو نہ کرتے تو میں سمجھتا کہ شاید ’’حجاج کی کمی‘‘ کی بات کر رہے ہیں، لیکن ڈاکٹر علی جمعہ نے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: اگر بات عام فیس بک یوزرز کی ہوتی تو زیادہ عجیب نہ تھی، کیونکہ یہاں وقت کے ساتھ ہر طرح کی باتیں گھڑ لی جاتی ہیں، لیکن جب علمی شخصیات کی طرف سے اس قسم کی باتیں سامنے آنے لگیں تو وضاحت لازمی سمجھی، فاقول وباللہ التوفیق:
کتبِ تاریخ میں کئی جگہ یہ جملہ ملتا ہے کہ ’’کسی نے اس سال حج نہیں کیا‘‘۔ لیکن بالعموم یہ جملہ مجمل ہوتا ہے اور دیگر کتبِ تاریخ اور بعض اوقات وہی مصنف کسی دوسری جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ: ’’عراق والوں میں سے کسی نے اس سال حج نہیں کیا یا مصر والوں میں سے کسی نے اس سال حج نہیں کیا‘‘۔ اور بعض اوقات یہ جملہ محض وہم پر مبنی ہوتا ہے جس کا ازالہ دیگر کتب کی جانب مراجعت سے ہو جاتا ہے۔ مثلاً 326ھ کو لے لیں۔ حافظ ذہبی کہتے ہیں ’’لم یحجّ احد‘‘ یعنی اس سال کسی نے حج نہیں کیا۔ شفاء الغرام وغیرہ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:(تین سو) چھبیس ہجری میں ’’عراق‘‘ سے حج معطل ہوا۔ جیسا کہ ذہبیؒ نے ذکر کیا۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حافظ ذہبی کے کلام میں اجمال ہے، ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے اْس سال حج ہوا ہی نہیں لیکن ’’شفاء الغرام‘‘ کی گفتگو نے واضح کر دیا کہ یہ بات صرف عراقیوں کی‘ کی جا رہی ہے کہ وہ لوگ اس سال حج نہیں کر پائے۔ پھر جب آپ ’’شفاء الغرام‘‘ کے اگلے جملے دیکھتے ہیں جو درالفرائد میں بھی موجود ہیں، تو بات مزید کھل کے سامنے آتی ہے کہ حافظ ذہبیؒ نے مطلقاً حج کی نفی نہیں کی، بلکہ صرف عراقیوں کی بات کی اور اس میں بھی ’’عمومِ نفی‘‘ مقصود نہیں بلکہ عمومی حالات کا سلب مقصود ہے۔ جسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’عام حالات میں حج کا جیسا اہتمام ہوتا تھا، اس لحاظ سے 326ھ میں نہ ہونے کے برابر تھا‘‘۔
در الفرائد اور شفاء الغرام کی گفتگو ملاحظہ ہو:عتیقی نے اس سال کی اخبار میں ذکر کیا: اس سال بغداد سے بہت تھوڑے حاجی پیدل نکلے۔ اور عرب سے بکثرت لوگ، مکہ میں قربانی کی، حج کیا اور شام کے رستے واپس ہوئے۔ مرآۃ الزمان میں 321ھ، 330ھ، 331ھ کے حج کے بارے میں ان لوگوں کی گفتگو ذکر کی جنہوں نے کہا کہ ان برسوں میں بھی حج نہیں ہوا، لیکن ساتھ ہی اس گفتگو کے ضعف کی طرف اشارہ بھی کیا اور اس بات کی تصریح بھی کر دی کہ ان برسوں میں حج ادا کیا گیا تھا۔یونہی 338ھ کے بارے میں دونوں قسم کے اقوال ذکر کیے۔
حافظ ذہبی نے 335ھ اور 337ھ کے بارے میں صاف الفاظ میں کہا: ولم یحج احد یعنی ان دو سال میں کسی نے حج نہیں کیا۔ لیکن 335ھ سے 339ھ تک کے تمام برسوں کے بارے میں اتحاف الوری اور شفاء الغرام وغیرھما میں ہے: (تین سو) پینتیس، چھتیس، سینتیس، اڑتیس، انتالیس میں عمر بن یحییٰ علوی نے لوگوں کو حج ادا کروایا۔ عرض یہ ہے کہ کسی ایک مورخ کا کوئی ایک مجمل جملہ لے کر یہ زور دینا کہ فلاں فلاں سال میں حج معطل رہا، بالکل نامناسب ہے۔
فریضہ حج عظیم شعائرِ اسلام سے ہے، اس کا تعطل معمولی بات نہیں کہ اس سلسلے میں ہر کس وناکس کی بات پر کان دھرے جائیں۔ بلکہ اگر تاریخی حقائق سے ایسا ثابت ہو بھی جائے کہ فلاں فلاں سال میں فریضہ حج معطل رہا تو اس سے یہ بات کہاں سے ثابت ہو جائے گی کہ ’’حج کی معطلی جائز بھی ہے؟‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ حجاج کے لیے 317ھ جیسا کٹھن سال کبھی نہ آیا۔ بد بخت قرامطہ کی جانب سے 7 یا 8 ذو الحجہ کو حجاج کرام پر حملہ ہوتا ہے، مسجدِ حرام کی حرمتوں کی پامالی کی جاتی ہے، ہزاروں لوگ مکہ کی گلیوں اور عین مسجدِ حرام میں شہید کر دیے جاتے ہیں، مقتولین کو چاہِ زمزم میں ڈال دیا جاتا ہے، میزابِ رحمت اکھاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، بابِ کعبہ اکھاڑ دیا جاتا ہے، غلافِ کعبہ اتار کر اس کے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں، حجرِ اسود نکال کر بحرین لے جایا جاتا ہے، آیاتِ الٰہیہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے، مسجدِ حرام کی حرمتوں کی ایسی پامالی کی جاتی ہے کہ کبھی یہود ونصاریٰ کی طرف سے نہ ہوئی۔۔۔
تاریخ کے اوراق میں صرف یہی ایک سال ایسا ملتا ہے جس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ شاید اس سال حج کی ادائیگی مکمل طور پر معطل رہی ہو گی۔ حتی کہ شفاء الغرام میں کہہ بھی دیا: اس سال کسی شخص نے نہ تو وقوفِ عرفات کیا اور نہ ہی افعالِ حج میں سے کوئی فعل ادا کیا۔العبر فی خبر من غبر میں کہا:’’ولم یحج احد‘‘ کسی نے بھی حج نہیں کیا۔ التاریخ المعتبر میں ہے:تین سو سترہ میں کسی نے حج نہیں کیا۔
اسلامی حج کی تاریخ میں یہی ایک ایسا سال آیا جس کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس سال مکمل طور پر حج موقوف رہا ہو گا، ورنہ وبا کا اندیشہ، دشمن کا خوف، اسلامی حکومتوں کے باہمی تنازعات اور دیگر اسی قسم کے امور حجاج کی تعداد پر تو اثر انداز ہوتے رہے، لیکن حج کا ایقافِ کلی، یعنی مکمل تعطل کبھی بھی نہ ہوا۔ لیکن یہ سانحہ چونکہ عین ایامِ حج میں مسجدِ حرام کے اندر ہوا، اور قرامطہ کا حملہ حاجیوں پر ہی تھا اور ان بدبختوں کا مقصد حج ہی کو روکنا تھا۔ اس لیے اس سال کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ اس سال حج مکمل طور پر معطل ہوا ہوگا، لیکن اس ایک سال کے سوا کسی دوسرے سال کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسعودی نے التنبیہ والاشراف میں کہا:جب سے اسلام کی روشنی نمودار ہوئی، اس سال یعنی 317ھ کے سوا کبھی حج نہ رکا۔لیکن مسعودی کے بارے میں کہاجا سکتا ہے کہ یہ چوتھی صدی کی شخصیت ہیں، اور لازمی بات ہے کہ ان کی گفتگو اپنے دور تک بلکہ کتاب کی تصنیف تک ہی کی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ ’’مجیر الدین العلیمی عبد الرحمن بن محمد بن عبد الرحمن المقدسی الحنبلی‘‘ کو سنیں، جن کا تعلق دسویں صدی ہجری سے جڑا ہوا ہے اور ان کی کتاب ’’التاریخ المعتبر‘‘ بھی دسویں صدی ہجری کی بنیادوں تک پہنچی ہوئی ہے، ان کا کہنا بھی بالکل ایسا ہی ہے: اسلام کے آنے کے بعد اس ایک سال کے سوا کبھی حج نہیں رکا۔
یعنی مسعودی کے مطابق چوتھی صدی تک اور مجیر الدین علیمی کے مطابق دسویں صدی ہجری یعنی سولہویں صدی عیسوی کی ابتداء تک حج کبھی بھی معطل نہ ہوا سوائے 317ھ مطابق 930ء کے۔ اور اگر معاملے کی مزید باریک بینی سے دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ حج کا مکمل تعطل اس سال بھی نہیں ہوا والحمدللہ حمداً کثیرا۔۔۔
مسلمان کہلانے والے زندیقوں نے عین مسجدِ حرام میں حاجیوں کو قتل کیا۔ لیکن وہ لوگ مرنے سے ڈرنے والے نہیں تھے، وہ جانتے تھے کہ حرمینِ طیبین کی موت شہادت ہے، اور ظلماً قتل تو ہر جگہ شہادت ہے، پھر حرم محترم میں مرنے سے کون ڈرے گا؟؟ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ احترامِ حرم میں جوابی کارروائی نہیں کی گئی، لیکن قتل کے ڈر سے کسی شخص نے اپنے معمولات میں کوتاہی نہیں آنے دی۔ علی بن بابویہ صوفی طوافِ کعبہ میں مصروف ہیں، تلواریں انہیں نوچ رہی ہیں اور ان کی زبان پہ یہ شعر جاری ہے:
تری المحبّین صَرعَی فی دیارہم
کَفِتیۃ الکہفِ لا یدرون کم لبثوا
ان بد بختوں نے 7 یا 8 ذو الحجہ کو حملہ کیا، ابھی ایک یا دو دن گزرے کہ بدبخت ابو طاہر قرامطی نشے میں دھت ہو کر ایک بار پھر مسجدِ حرام میں داخل ہوتا ہے، کیا دیکھتا ہے کہ طوافِ کعبہ پھر سے جاری ہے۔۔۔!!!
بدبخت تلوار نکال لیتا ہے اور جو ہاتھ آئے اسے شہید کرنا چاہتا ہے، ایک طائف کو شہید کر کے رکا پھر آیہ مقدسہ کا مذاق اڑاتے ہوئے چلایا:تم لوگ تو کہتے تھے کہ جو یہاں آ گیا اسے امن مل گیا، کہاں ہے امن؟ دیکھو میں نے اس شخص کو ابھی تمہارے سامنے مار ڈالا ہے؟ راوی کا کہنا ہے کہ ایک لمحے مجھے ڈر لگا کہ اگر میں نے اس کی بات کا جواب دیا تو یہ بدبخت مجھے بھی مار ڈالے گا، لیکن اگلے ہی لمحے شوقِ شہادت غالب آ گیا اور میں اس کی سواری کے پاس آ گیا اور اس کی لگام پکڑ کر بولا:سن۔۔۔!! اس کا مطلب وہ نہیں جو تو کہہ رہا ہے، اس آیت کا مطلب ہے کہ جو یہاں آ جائے اسے امن دے دو۔۔!! یہ مانا کہ حاجیوں کے لیے یہ سال انتہائی کٹھن تھا، لیکن وہ حاجی ہم جیسے بہانہ تراش نہ تھے۔ ان کے پاس قوتِ ایمانی تھی اور دلوں میں شوقِ شہادت موجزن تھا، وہ موت کو حیات سمجھنے والے کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ:دن رات حرمینِ طیبین میں مرنے کی دعائیں التجائیں کرنے کے بعد جب یہاں مرنے کا موقع مل رہا ہے تو موت کے ڈر سے حج ہی چھوڑ دیا جائے۔۔۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ حجاج کرام کی اکثریت کو شہید کر دیا گیا، بہت ہی تھوڑے لوگ بچے جو حج کر سکے، لیکن پھر بھی حج ادا کیا گیا۔
اتحاف الوری میں ہے: اس سال نہ تو کسی نے عرفہ میں وقوف کیا اور نہ ہی دیگر اعمال حج کسی نے ادا کیے، سوائے تھوڑے سے لوگوں کے جنہوں نے حیلے بہانے سے اپنا حج بغیر امام کے مکمل کیا اور یہ لوگ پا پیادہ تھے۔ مروج الذہب میں ہے: تین سو سترہ ہجری میں قرامطہ لعنہم اللہ تعالیٰ کے اس حادثہ کی وجہ سے کسی کا حج مکمل نہ ہو سکا، سوائے تھوڑے سے لوگوں کے۔
کتبِ تاریخ کے مطابق اس سال تیس ہزار آدمیوں کو شہید کیا گیا، لیکن ان حالات میں بھی پختہ ایمان والوں نے موت کے ڈر سے حج کو معطل نہیں کیا۔ 357ھ مطابق 968ء میں ایسی وبا پھیلی کہ چند لوگوں کے سوا کوئی شخص مکہ تک نہیں پہنچ پایا۔ اور جو پہنچے ان کی بھی اکثریت حج کی ادائیگی کے بعد اس دنیا سے چل بسی، لیکن موت کا خوف حج کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں بن پایا۔ اس گفتگو کا مقصد حج کے تعطل کا جواز یا عدمِ جواز نہیں، مقصد محض اس بات کی وضاحت ہے کہ: آٹھویں سالِ ہجرت سے 1440ھ سمیت 1433 بار حج کا موقع آیا، وقت نے کئی کروٹیں بدلیں، امت نے مختلف نشیب وفراز دیکھے، حاجیوں کی تعداد کبھی کم رہی تو کبھی زیادہ، لیکن کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ حج مکمل طور پر معطل وموقوف ہوا ہو۔ ہم اپنے ربّ کریم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ رؤف ورحیم اپنے حبیبِ کریمؐ کے صدقے عالم کو اس وبا سے نجات بخشے، اور حج کا جو سلسلہ اب تک نہیں رکا، اس سال بھی اسے رکنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین