اور یہ سرکاری ٹڈی دل

859

ٹڈی دل حملہ آور ہے فصلوں کو خطرہ ہے لاکھوں ایکڑ پر پکی فصل کو ٹڈیاں چند گھنٹوں میں چٹ کردیتی ہیں۔ وفاق اور سندھ کی حکومتیں اس مسئلے پر بھی لڑ رہی ہیں۔ اس پر بحث کی ضرورت ہی نہیں اگر ملک کے عوام ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے حکمرانوں کے دعوئوں اور الزامات کی سیاست سے الگ ہوجائیں تو ان کو خاصا اطمینان ہوگا۔ سندھ کی حکومت کہتی ہے کہ وفاق نے مدد نہیں کی۔ وفاق کہتا ہے کہ سندھ کی نااہلی ہے۔ غرض خوب ڈراما ہورہا ہے، حقائق یہ ہیں کہ کُل چار جہاز دستیاب ہیں جن میں سے تین خراب ہیں اور خراب نہ بھی ہوں تو دوا چھڑکنے والے جہازوں کا پائلٹ بھی ایک ہے۔ یعنی اگر چاروں جہاز ٹھیک بھی ہوں تو اڑے گا ایک ہی جہاز۔ ٹڈی دل ایک دن میں پاکستان نہیں پہنچے۔ ان کا بین الاقوامی روٹ اقوام متحدہ نے بھی بار بار بتایا ہے۔ ہر حکومت کو بروقت متنبہ کیا ہے پاکستانی حکومت کو اس معاملے میں خصوصی امداد بھی مل چکی لیکن ٹڈی زیادہ تیز رفتار ثابت ہوئی اور حکمران سست۔ لیکن آپ ہمارے حکمرانوں کو کسی معاملے میں سست نہیں پائیں گے۔ ٹڈی دل نے حملہ کردیا ہے اب ان کی چلت پھر سے دیکھنے سے تعلق رکھے گی۔ لیکن ایک کمال اور دکھایا جائے گا اور وہ یہ ہے کہ ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے ملنے والے فنڈز کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ٹڈی دل اپنا کام کرے گا۔ لیکن معاملہ صرف فنڈز کا نہیں ہے۔ پاکستان اور خصوصاً سندھ کی حکومتوں اور سرکاری اداروں کی کرپشن کے سامنے یہ ٹڈی دل معصوم لگتا ہے۔ چند ہزار یا لاکھ کی تعداد میں ٹڈی آتی ہیں ایک مخصوص راستے میں آنے والی فصلوں کو چٹ کرکے اگلی منزل پر روانہ ہوجاتی ہیں لیکن ہمارے حکمران۔ الامان والحفیظ۔ پکی ہوئی فصل سے پہلے فصل کاشت ہونے کے وقت کسان اور زمیندار سے فصل کا سودا کرکے اس کا شکار اور کسان کے لیے ٹڈی دل بن جاتے ہیں۔ پھر جب فصل تیار ہوتی ہے تو اس کو بھی یہ ٹڈی دل چٹ کرتا ہے۔ گنے کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی جاتی۔ قیمت مقرر ہوجائے تو شوگر مل والے گنا نہیں خریدتے، کسان ٹرالیوں پر گنا لاد کر کئی کئی دن ملوں کے باہر کھڑے رہتے ہیں۔ اس کے لیے بھی مال لگتا ہے اور یہ سرکاری ٹڈی دل یہاں بھی سب چٹ کرجانا ہے۔
پاکستان میں سرکاری ٹڈی دل کسی خاص موسم میں کسی خاص روٹ پر نہیں آتا۔ یہ ہر طرف حملہ آور ہوتا ہے۔ ہر فصل کو چٹ کرجاتا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں تازہ ترین آٹا چینی بحران۔ کیا ہوا تھا۔ کون لوگ ذمے دار تھے۔ سب سرکار تھے پچھلی یا موجودہ یہ سب سرکاری ٹڈی دل ہے یہ چینی پر 30 ارب روپے چٹ کرگئے۔ ٹڈی دل کے حملے میں صرف ایک زرعی شعبے میں اتنی تباہی نہیں ہوتی۔ گویا ٹڈی تو اس سرکاری ٹڈی دل کے سامنے معصوم سی چیز ہے۔ ہمارے سرکاری ٹڈی دل نے ملک کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا ہے۔ یہ لوگ کرپشن کے لیے میدان گھڑتے ہیں ایجاد کرتے ہیں، قدرتی آفات کے منتظر رہتے ہیں، غیر ملکی امداد کو ٹھکانے لگانے کے ماہر ہیں ان کو یہ بھی شرم نہیں آتی کہ ایک طرف وہ قوم کو طعنے اور الزام دیتے ہیں کہ وہ باشعور نہیں اور دن کی روشنی میں اسمبلی کی موجودگی میں کھربوں روپے لوٹ لیے جاتے ہیں۔ حالیہ کورونا بحران تو پورے ملک میں ایک ہی کہانی سنارہا ہے۔ کسی واٹس اپ گروپ کی کہانی نہیں ہے، یہ ریکارڈ پر بھی ہے اور ان کہانیوں کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ کروڑوں روپے کے ماسک ہوں یا کورونا امدادی فنڈز کے سیکڑوں ارب روپے ان کی خورد برد اور چٹ کرنے کی خبریں تو عدالت عظمیٰ تک پہنچ چکی ہیں۔ جو سرکاری ٹڈی دل وبائی امراض کی امدادی رقم اور ماسک کے معاملے میں اس قدر خراب ریکارڈ رکھتا ہو وہ عام دنوں میں کیا کرتا ہوگا۔ اسی لاک ڈائون کے دوران فیکٹریاں کھولنے کے پانچ پانچ لاکھ اس سرکاری ٹڈی دل نے ہڑپ کیے چھوٹے دکانداروں سے پانچ پانچ ہزار روپے لے کر سرکاری ٹڈی دل چٹ کرگیا۔ یہاں تک کہ ٹھیلے والوں سے بھی ہزاروں روپے وصول کرلیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرغی کا گوشت ڈیڑھ سو روپے فی کلو بڑھ گیا۔ گائے اور بکرے کے گوشت کی قیمت بھی بڑھ گئی۔ سبزیاں اور پھل مہنگے ہوگئے، کیلا 175 اور 180 روپے درجن، خربوزہ 120 روپے کلو، سیب 250 روپے کلو کیا یہ چیزیں اب مہنگی پیدا ہورہی ہیں، نہیں۔ سرکاری ٹڈی دل نے جو مال دکانداروں سے لے کر چٹ کیا تھا اب دکاندار صارفین سے وہ وصول کررہے ہیں۔ کمشنر صاحب نیند سے جاگیں گے تو دوچار دکانداروں پر جرمانے کردیں گے۔ اس کے بعد ان کا ٹڈی دل اس مشکل سے بھی فائدہ اٹھائے گا۔
کس کس شعبے کو روئیں ہر شعبے میں سرکاری ٹڈی دل فصلیں چٹ کررہا ہے لیکن اسے کوئی ٹڈی دل سمجھتا ہی نہیں۔ ٹڈی چھوٹا سا کیڑا ہے اسی طرح سرکار کا کلرک، پولیس کا سپاہی، چھوٹا افسر بڑا افسر بہت بڑا افسر یہ سب درحقیقت کیڑے مکوڑے ہی ہیں اگر طاقتور اور ایماندار حکومت ہو تو یہ سرکاری ٹڈی دل کیڑوں کی طرح مسل دیے جائیں لیکن سرکار نے خود اس ٹڈی دل کو اپنے لیے کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے تو پھر اسے مسلے گا کون۔ سرکار ٹیکس کا ہدف مقرر کرتی ہے، ٹیکس اس سے زیادہ بنتا ہے لیکن سرکار رعایت کرتی ہے، ٹیکس والا عملہ سرکار ٹڈی دل ٹیکس دینے والے بڑے بڑے اداروں سے رابطہ کرتا ہے اربوں روپے چٹ کرجاتا ہے اور سرکار کو ٹیکس نہیں ملتا۔ سرکار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے خوب کمارہی ہے۔ دنیا میں پٹرولیم مفت سے کم قیمت کا ہوگیا۔ ہماری سرکار نے ٹرانسپورٹ کرایے، ریلوے کرایے، جہاز کے کرایے سب بڑھادیے ہیں۔ عوام کو اس کمی کا فائدہ کیوں نہیں مل رہا۔ بجلی والے الگ لوٹ رہے ہیں، غرض ہر ادارے پر سرکاری ٹڈی دل حملہ آور ہے۔ افریقا سے اٹھنے والے ٹڈی دل کے خاتمے کی بنیادی ذمے داری اقوام متحدہ کی ہے۔ پاکستان میں حکومت پاکستان کی لیکن دونوں نے اس ذمے داری کو پورا نہیں کیا اور اب پاکستانی معیشت کی خوفناک تباہی سامنے کھڑی ہے۔ سرکاری ٹڈی دل کے خاتمے کی ذمے داری کس کی ہے۔