نسل پرست امریکا میں مظاہرے

958

امریکا کی درجن بھر سے زیادہ ریاستیں آج کل زبردست احتجاج توڑ پھوڑ اور ہنگاموں کی لپیٹ میں ہیں۔ ایک ہفتے پہلے تک ایس او پیز پر مشین کی طرح عمل کرنے والے امریکی تمام ایس او پیز کو بالائے طاق رکھ کر سڑکوں پر آ گئے اور تو اور برطانیہ میں بھی بڑے بڑے ہجوم سڑکوں پر ہیں۔ اس معاملے سے امریکا کے نسل پرست ملک ہونے کا ایک اور ثبوت سامنے آ چکا ہے امریکی حکومتوں اور میڈیا نے نسل پرستی کی جو آگ بھڑکائی تھی آج ان ہی کے ملک کو وہی آگ جھلسا رہی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کورونا کے سبب جو احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں امریکیوں کے بہت بڑے طبقے نے محض ایک قتل کی وجہ سے اس کو بالائے طاق کیوں رکھ دیا پہلا معاملہ تو یہ ہے کہ امریکا میں سیاہ فام ہی نہیں بلکہ جو سفید فام نہیں ہے وہ بھی تعصب کا شکار ہے۔ اور اگر یہ غیر سفید فام مسلمان ہو تو اس کو قابل گردن زدنی تصور کیا جاتا ہے سیاہ فاموں ،مسلمانوں اور غیر سفید فام کسی بھی ملک کے باشندے کو اس قدر قابل نفرت کس نے بنایا۔ اگر امریکی حکومت یا اپوزیشن اپنے کھیل سے باہر نکل کر سوچے تو شاید انہیں اس میں اپنا ہی چہرہ نظر آئے گا۔ 9/11 سے پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز واقعات شروع ہو گئے تھے لیکن 9/11 والے دن سے ہی میڈیا اور امریکی حکام نے ایک منصوبے کے تحت سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈالنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب 20 برس بعد بھی امریکا میں مسلمان دہشت گردی کی علامت تصور کے لیے جا رہے ہیں دوسرا تاثر پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور سیاہ فام ہونا تو ویسے بھی ان سفید فاموں کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے ۔ یہ لوگ سفید چمڑی کے سوا کسی کو بالا دستی دینے کو تیار نہیں ۔ آئین قانون اور روایات اب ہوا میں اُڑ چکے ۔ اب امریکا ایک مسلمہ نسل پرست ریاست بن چکا ہے ۔ منی پولس میں سیاہ فام شخص کے پولیس کی حراست میں قتل کا واقعہ پہلا نہیں ہے لیکن رد عمل دینے میں سیاہ فام زیادہ مستعد ہیں اس لیے انہوں نے سخت رد عمل دیا اس کے بعد حکومت مخالف پارٹی بھی متحرک ہوئی ۔ ممکن ہے اس کا ملبہ ٹرمپ پر ڈال کر اسے اگلے انتخابات میں ہروا دیا جائے ۔ لیکن امریکا کو نسل پرستی کے چنگل سے پھر بھی نہیں نکالا جا سکے گا ۔ پورے امریکا میں احتجاج ہو رہا ہے ۔ سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھا جا رہا ۔ لوگ ایک دوسرے میں گھل مل کر جلوس نکال رہے ہیں ۔ پولیس سے جسمانی طور پر اُلجھے ہوئے ہیں لیکن پورے ملک میں کہیں کوئی پریس کانفرنس نہیں ہو رہی کہ سماجی فاصلہ اختیار کرو ورنہ اسپتال بھر جائیںگے ۔اس کا سبب صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ یہ مجمع کسی مذہب کی وجہ سے نہیں ہے اس لیے اگر یہ مذہبی اجتماع ہوتا تو امریکا کی بھی بہت سی تنظیموں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھتا ۔ دیکھا گیا ہے کہ اس سے قبل بھی سیاہ فام شخص کو قتل کرنے کے مجرم پولیس اہلکار کو گرفتار کیا گیا مقدمہ چلا اسے سزا سنائی گئی ، لوگ ٹھنڈے ہو کر گھروں کو گئے اور وہ قاتل پولیس والا مزے سے کسی دن اپنے گھر چلا گیا ۔ اس کی رہائی کی خبر بھی نہیں آئی ، جب سامنے آئی تو ایک دو مظاہرے ہو گئے ۔ اس مرتبہ ایسا ہی خدشہ ہے انصاف کا عالمی سطح پر قتل کرنے والے ملک امریکا سے اس معاملے میں بھی انصاف کی زیادہ توقع نہیں ہے ۔ چار پولیس والے گرفتار ہیں ۔ ایک پر تشدد کر کے قتل کرنے کا الزام ہے باقی تین پر اعانت جرم کا الزام ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ پہلے چاروں کو قتل کا ملزم قرار دیا جائے گا ۔ ہنگامے ختم کرائے جائیں گے اور پھر پہلے والی کہانی خاموشی سے دہرائی جائے گی ۔ امریکا میں ہنگاموں کو دیکھ کر غزہ کے فلسطینی بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کاش ہم بھی سیاہ فام امریکی ہوتے ۔لاک ڈائون میں پھنسے ہوئے کشمیری بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ہمیں بھی سیاہ فام امریکی جتنا درجہ دے دیا جاتا ۔ ایک سیاہ فام آدمی مر گیا تو امریکا میں آگ لگ گئی ۔ ہزاروں فلسطینی ،ہزاروں کشمیری مر چکے تو کوئی چوں بھی نہ بولا ۔ لیکن یہ کشمیری اور فلسطینی مسلمان ہونے پر پھر بھی فخر کرتے ہیں۔امریکا کی حکومت دنیا کے درجن بھر سے زیادہ ممالک میں براہ راست جنگ میں ملوث ہے اور سو کے قریب ممالک میں بالواسطہ جنگ کر رہا ہے ۔ اس کے ہاتھوں دنیا میں لاکھوںلوگ مر رہے ہیں یہ امریکی ان جنگوں کے خلاف کیوں سڑکوں پر نہیں آئے۔در اصل یہ معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔ احتجاجی امریکیوں کو بھی سیاہ فام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ کسی اور سیاسی ایجنڈے کے تحت یہ احتجاج کر رہے ہیں ۔ اگر امریکا میں انصاف ہو رہا ہوتا تو ڈاکٹرعافیہ کے لیے بھی ایسے ہی ہجوم وائٹ ہائوس پر چڑھائی کر دیتے لیکن عافیہ کا معاملہ صرف عافیہ نہیں بلکہ ایک مسلمان با حجاب خاتون عافیہ صدیقی کا معاملہ تھا۔ نسل پرست متعصب ملک امریکا میں ایک مسلمان کو17برس میں انصاف نہیں ملا تو کب ملے گا ۔