نامور ادیب شاعر اور نقاد ڈاکٹر آصف فرخی انتقال کرگئے

973

نامور ادیب شاعر اور نقاد ڈاکٹر آصف فرخی دل کا دورہ پڑنےسے انتقال کرگئے۔

تفصیلات کے مطابق نامور ادیب شاعر اور نقاد ڈاکٹر آصف فرخی کراچی میں انتقال کرگئے،انہیں دل کا دورہ پڑا تھا، تاہم طبی امداد ملنے سے قبل وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔

ڈاکٹر آصف فرخی 16 ستمبر 1959ء کو کراچی میں نامور ادیب اسلم فرخی کے گھر پیدا ہوئے، آصف کی والدہ ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی اور شاہد احمد دہلوی کی بھتیجی ہیں۔

ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے ایم بی بی ایس کیا، ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے ماسٹرز کی ڈگری لی، آغا خان یونیورسٹی کراچی، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف اور حبیب یونیورسٹی کراچی میں عملی زندگی کی جدوجہد میں حصہ لیا، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں کے لیے ادبی میلوں کا اہتمام کیا، ملکی و غیر ملکی کانفرنسوں میں شرکت کی، ادبی جریدے ’’دنیا زاد ‘‘ کی ادارت اور ایک اشاعتی ادارے’’ شہر زاد ‘‘ کی انتظامی ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھایا اور ساتھ ہی ساتھ افسانے لکھے، تراجم کئے، تنقید کی، اخبارات میں کالم لکھے اور شاعری بھی کی۔

آتش فشاں پر کھِلے گلاب‘‘، ’’اِسم اعظم کی تلاش‘‘، ’’چیزیں اور لوگ‘‘، ’’شہربیتی‘‘، ’’شہر ماجرا‘‘، ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘‘، ’’اِیک آدمی کی کمی اور’’میرے دِن گزررہے ہیں‘‘ آصف فرخی کے افسانوں نے مجموعے ہیں اور ’’عالم ایجاد‘‘ اور ’’نگاہ آئینہ سازمیں‘‘ تنقیدی مضامین کی کتب۔ اُنہوں نے نہ صرف آئن رینڈ ، ہرمن ہیس ، گریش کرناڈ ، ستیہ جیت رائے ، اگنارزیو سلونے ، ساتو کی زاکی ، ارنستو سباتو ، عمر ریوابیلا ، نجیب محفوظ ، ارون دھتی رائے ، رفیق شامی اور کئی دوسرے اہم لکھنے والوں کے انگریزی متون ترجمہ کرکے اُردو میں منتقل کیے، انگریزی میں بھی مسلسل لکھا ہے۔

انہوں نے اپنے ہاں کے ادب کے کئی اہم موضوعاتی انتخاب مرتب کیے ہیں۔ ممتاز شیریں کے تنقیدی مضامین ’’منٹو نوری نہ ناری‘ فسادات کے افسانوں پر مشتمل کتاب‘ ’’ظلمتِ نیم روز‘‘ اور’’ منٹو کا آدمی نامہ ‘ ‘ کے علاوہ دیگر متعدد کتب، ان کے اسی باب میں قابل رشک ادبی کارنامے ہیں