قانونی حقوق کا عدم اطلاق اور صنعتی بدامنی

274

حالیہ ایام خصوصاً مقدس ماہ رمضان شریف میں کراچی کے صنعتی علاقوں میں مزدور طبقہ میں جو بے چینی خصوصاً ملازمتوں کا عدم تحفظ، ماہانہ اجرت کی عدم ادائیگی اور اجتماعی معاہدہ و قانون کے تحت منافع بونس کی عدم ادائیگی کے سبب پائی گئی۔ اور یہ مایوسی اس طرح صنعتی بدامنی کی جانب مرکوز ہوتی ہوئی نمایاں ہوئی جس کا واحد سبب صنعتی کارخانوں کی انتظامیہ کی ہٹ دھرمی، قانون شکنی اور اس کا عدم اطلاق تھا۔ اگر وہ معاملات و مسائل کو باعزت طریقے سے بذریعہ باہمی مذاکرات طے کرنے پر یقین رکھتے اور کچھ لو اور دو کی پالیسی کو اپناتے تو یہ صورت حال ہرگز درپیش نہ ہوتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ بے چینی و بدامنی کی کیفیت صرف چند صنعتی کارخانوں میں ہی نظر آئی ہے جبکہ بیشتر صنعتی کارخانوں میں افہام و تفہیم کا رویہ اور مزدور طبقہ کی جانب سے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا گیا۔ جبکہ یہ بے چینی و مایوسی کے رجحانات اکثر ملک کی دوسری بڑی صنعت ٹیکسٹائل گارمنٹس کے کارخانوں میں پائے گئے اور وہ بھی درمیانی سطح کے نہیں بلکہ وہ بڑے صنعتی کارپوریٹ گروپ کی سطح پر نامور ہیں اور بے دریغ منافع کے حصول کے ذریعہ وہ اس وقت ایک سے ترقی کرتے ہوئے 10 سے 15 صنعتی یونٹوں کے مالک ہیں اور یورپی یونین کی فری ٹیکس GSP پلس اسکیم کے ذریعے ڈالروں میں کثیر منافع کمارہے ہیں۔ دوسری جانب درمیانی درجہ کے صنعتی کارخانوں میں یہ بے چینی و مایوسی کا رجحان دونوں فریقین کے باہمی تعلق کے سبب بہت کم نظر آیا کیونکہ دونوں فریقین نے معاملات کو باہمی طے کیا یا حالات کے
تحت موخر کردیا۔ لیکن اس کے برعکس ان نامور صنعتی گروپ میں افہام و تفہیم اور باہمی تعلقات کا فقدان ہے اور غلامانہ و حاکمانہ فرز عمل جاری ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مزدوروں کے قانونی حق انجمن سازی کو بزور طاقت تہس نہس کیا اور کاغذی پاکٹ یونینوں کو تشکیل دیا گیا۔ اگر ہم اس تناظر میں مذکورہ بدامنی و بے چینی کی صورت حال کا تجزیہ کریں تو معاملات و مسائل کو مزدوروں کی حقیقی نمائندہ تنظیم CBA کے ذریعے بے چینی مایوسی و بدامنی سے محفوظ رکھتے ہوئے اور باہمی دوطرفہ مذاکرات کی جانب پیش رفت کرتے ہوئے مثبت نتائج کے حصول کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ بات بہت واضح ہے کہ یہ نامور صنعتی گروپ بجائے کاغذی پاکٹ یونین کی تشکیل کے حق انجمن سازی کا غیر مشروط حق منتخب نمائندوں کے سپرد کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالیں تو مستقبل میں صنعتی تعلقات مابین فریقین باعزت طریقہ سے جاری و ساری ہوسکتے ہیں۔ نیز کارخانہ کے مزدوروں میں احساس شراکت و تعلق کے جذبات بھی فروغ پائیں گے۔ میرا مشاہدات پر مبنی تجزیہ یہ کہتا ہے کہ ریاستی اہلکاروں و صنعت کاروں کو حالیہ بے چینی و بدامنی کے اسباب کو تلاش کرنا اور اس کا تدارک کرنا بھی مستقبل کے صنعتی امن، سلامتی و بقا کے لیے انتہائی افادیت کا حامل ہے۔ اب مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ زبان ’’مٹی پائو‘‘ کے حسب سابق رویہ کو ترک کرنا ہوگا بصورت دیگر یاد رہے کہ مسائل کا اکٹھا کرنا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے۔ بطور خاص ان نامور صنعت کاروں کو غیر منظم مزدور اور منظم مزدور کے فلسفہ کو اپنے کاروباری فروغ استحکام و ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی اس کے فوائد و نقصانات کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ حق انجمن سازی کو آزادانہ ماحول میں تسلیم کرتے ہوئے ان کو پاکٹ ٹریڈ یونین ازم کو غیر باد کرتے ہوئے فرینڈلی ٹریڈ یونین کے فلسفہ کو زیر بحث لانا ہوگا جس کے ذریعے کارخانہ میں مابین فریقین احساس تعلق کے جذبات کو فروغ حاصل ہوگا اور باہمی اعتماد و تعاون کے سازگار ماحول کو ممکن بنایا جاسکے گا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ واضح رہے کہ فریقین کے مابین اعتماد و مفاہمت کا شدید فقدان ہے جس کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اس تجزیہ کا دوسرا حصہ بھی صنعتی تعلقات اور انسانی وسائل کی انتظام کاری (IR/HR) کے شعبہ سے متعلق ہے جس کے لیے ہم کو (Relationship) رشتوں کی اہمیت و افادیت اور باہمی تعلق کو سماجی و نفسیاتی علوم کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ مذکورہ شعبہ انتہائی اہمیت و افادیت کے حامل ہیں اور صنعتی معاشرے کو خوشگوار و باہمی اعتماد کی فضا میں پروان چڑھانے کے لیے
تربیت یافتہ اور جدید علوم سے ہم آہنگ عملی تجربہ کے حامل افراد کی اشد ضرورت ہے جو ایک دوسرے کو (Accomodate) کھپانے کے فلسفہ پر یقین رکھتے ہوئے (Give and Take) کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر صنعتی تعلقات کو پروان چڑھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس عملی طور پر نامور صنعتی گروپ اپنے مخصوص مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان حساس و نازک شعبہ جات کے لیے ’’چلے ہوئے کارتوسوں‘‘ کا انتخاب کرتے ہیں جو صرف کمانڈ اور کنٹرول کا یکطرفہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں جبکہ اس مخصوص شعبہ (IR/HR) سے انکار دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں کیا حاصل ہوتا ہے صرف تنائو، کھچائو، بے چینی، افراتفری و مایوسی کے جذبات میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے جو کسی بھی طریقہ سے خوشگوار و صحت مند صنعتی معاشرہ کی تشکیل کے لیے سود مند ثابت نہیں ہورہا ہے۔ لیکن صنعت کاروں کو اس نکتہ کو زیر غور لاتے ہوئے ’’حق بہ حق دار‘‘ (Right Man for Right Job) کی افادیت و حصول کو سامنے رکھنا ہوگا۔ جس کے سبب ان کے مسائل و مشکلات کو احترام انسانیت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کم کیا جاسکتا ہے۔ خوشگوار صنعتی تعلقات کو آج کے اس گلوبل ماحول میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صنعتی تعلقات کا نظام و قانون اس پس منظر میں بنایا گیا ہے کہ دوطرفہ تعلقات کے فارمولا کو مدنظر رکھتے ہوئے پیداواری اہداف اور پیداورایت کا حصول ممکن بنایا جائے اور صنعتی امن کو فروغ دیا جائے۔