بچے،چھٹياں اور کورونا‬

807

سروے:فائزہ مشتاق
موسم گرما کی تعطیلات کا بہت بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے،چھٹیاں ہوتے ہی بچے عموماً دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں، کرونا وائرس نے جہاں دنيا کا پہيہ روکا وہيں دنیا بھر میں تعلیمی ادارے بھى زد میں آئے۔ پاکستان میں بھی قبل از وقت چھٹیوں کا اعلان کردیا گیا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بچوں کی دیگر سرگرمیاں بھی تقريباً ختم ہوگئیں اور گھروں تک محدود ہوگئے _ماہ رمضان بھی سایہ فگن ہو چکا ہے اور عيد الفطر بھى ہر گزرتے روزے کے ساتھ قريب آرہى ہے۔ ہم نے اسکول اور کالج کے کچھ طلباء سے گفتگو کی اور معلوم کیا کہ وہ ان حالات میں آخر کيا سوچتے ہيں اور کيسا محسوس کر رہے ہیں۔يہ گفتگو قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کی جارہی ہے :
1) آپ کرونا کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
2) رمضان اور گرمیوں کی چھٹیاں کیسے گزارنے کا ارادہ ہے یا گزار رہے ہیں؟
3) ان حالات میں آپ کے خیال میں عید کیسے گزرے گی یا گزارنی چاہیے؟
4) کیا آپ اپنے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کی مدد کرتے ہیں؟کیسے؟

مشعل عرفان ( چوتھى جماعت کى طالبہ)
1)میں جب بھی کرونا سے لوگوں کو مرتے ديکھتى ہوں اور اس کے بارے ميں عجيب و خطرناک باتيں سنتى ہوں تو ڈر جاتى ہوں۔
2)رمضان اور چھٹياں دونوں مزے سے گزر رہے ہیں۔مجھے گڈا گڈى کى شادى کا شوق ہے۔لاک ڈاؤن کى وجہ سے ميرى سہيلياں نہیں آسکتيں تو گڈا گڈى کى شادى بھی ابھى نہیں ہوسکتى ليکن میں گڑيا کى چيزيں جيسے کپڑے،فرنيچر بناتى رہتى ہوں۔جب لاک ڈاؤن ختم ہوگا تو پھر گڑيا کى شادى کروں گى ۔
3)ان حالات میں عيد کا وہ مزہ نہیں ہوگا جو پہلے ہوا کرتا تھا-لاک ڈاؤن سے پہلے ہى پاپا نے کپڑے دلوادئيے تھے،مگر اب کرونا بہت پھيل گيا ہے اس لئے سينڈل اور ميچنگ کى چوڑياں خريدنے نہیں جاسکيں گے۔
4)جى ہاں میں اپنے والدين اور بہن بھائیوں کى مدد کرتى ہوں اور گھر کے کاموں میں بھی امى کے ساتھ کام کروا ديتى ہوں۔
مريم پيرزادہ(جماعت چہارم کى طالبہ)
1)يہى کہ يہ ايک آزمائش ہے اور اللہ جب چاہے ختم کرسکتے ہیں۔
2)گرميوں کى چھٹياں تو لاک ڈاؤن کى نظر ہوگئيں۔چھٹياں ہوتے ہى میں نے دعائیں ياد کيں اور اسکول کا ہوم ورک کرنے میں گزر رہى ہيں،روزے اور عبادت میں وقت کا پتا نہیں چلتا۔
3)ان حالات ميں لگتا ہے کہ عيد گھر پر ہى گزرے گى۔نہ کہيں آ جا سکيں گے،نہ ہى عيدى ملے گى۔اميد ہے پھر بھى صبر و شکر کر کے گزاريں گے۔
4)بالکل امى ابو کى مدد کرتى ہوں اور انکو چائے بنا کر ديتى ہوں۔آجکل دسترخوان بھی لگاتى اور اٹھاتى ہوں۔
شفا عبداللہ : (جماعت دوئم کى طالبہ )
1)گھر میں سب کہتے ہیں کہ کرونا ايک سازش ہے،مجھے بھی اب يہى لگتا ہے۔آجکل زیادہ سے زیادہ گھر میں رہتى ہوں اور ہاتھوں کو سينيٹائيزر سے دھوتى ہوں، تاکہ کرونا سےبچ سکوں۔
2 )اس دفعہ چھٹياں بہت بور گزر رہى ہيں۔نہ کہيں آ جا سکتے ہیں،بس گھر میں ہى رہتے ہیں۔آن لائن اسکول کى پڑھائى ہو رہى ہے۔مدرسہ دادى سے پڑھ ليتى ہوں۔
3)ميرا خيال ہے کہ اس بار عيد سب کو گھر میں ہى رہ کر گزارنى چاہئے۔دوستوں اور رشتہ داروں کو فون پر ہى عيد کى مبارکباد دينى چاہیئے۔2
4)امى کے ساتھ چھوٹے بھائى کو سنبھالنے میں مدد کرتى ہوں۔لاک ڈاؤن کى وجہ سے کام والى بھى نہیں آرہى تو اس لئے گھر کے کاموں میں بھی امى کا ہاتھ بٹا ديتى ہوں۔
مريم عرفان(جماعت چہارم کى طالبہ)
1)ہر جگہ اتنا کرونا کا ذکر ہوتا ہے کہ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں سوچتى۔
2)رمضان اور چھٹياں بہت اچھى اور مزے سے گزر رہى ہیں،ميرى چچازاد کزن گھر کے قريب ہے رہتى ہے اس کے ساتھ ہى کھيلتى رہتى ہوں،وہ کبھى ہمارے گھر رکنے آجاتى ہے اور کبھى میں اس کے گھر رہنے چلى جاتى ہوں۔
3)ميرے خيال ميں عيد گھر پر ہى گزرے گى۔کہيں جا تو نہیں سکيں گے اس لئے لگتا ہے کہ شايد عيد زيادہ تر سوتے ہوئے ہى گزرے۔
4)میں تو کچھ نہیں کرتى کيونکہ ميرےپاپا دفتر ہوتے ہیں اور ميرى دونوں بہنوں میں سے ايک تو بالکل کام نہیں کرتى اور دوسرى بہن کام پہ کام کرتى چلى جاتى ہے اس لئے میں بس يہ کرتى ہوں کہ جو بہن کم کام کرتى ہے،اس کے ساتھ ٹى وى ضرور ديکھ ليتى ہوں۔
نبيحہ يوسف(او ليول طالبہ،حافظہ)
1) يہ ایک وبائی مرض ہے جس نے پوری دنیا میں تباہی مچا دی۔ ہمیں اسے اللہ تعالی کی طرف سے سدھارنے اور خود کو بہتر کرنے کے موقع کے طور پر لینا چاہیے۔ بے شک ہم موجودہ حالات میں درخت نہیں کاٹ سکتے یعنی کہ کام نہیں کر سکتے لیکن کم از کم اپنی آرى تو تیز کرسکتے تاکہ مستقبل میں میں ہماری صلاحیتیں اور کارکردگی بہتر ہو سکے۔
2) کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کى وجہ سے چونکہ ہمارے امتحانات آگے بڑھ گئے،اس لئے آج کل ان کی مزید تیاری کر رہی ہوں۔ کچھ وقت بہنوں کے ساتھ کھيل ميں گزر جاتا ہے،مصروفیات کی وجہ سے جو پہلے نہیں کھيل پارہى تھى وہ شوق بھى پورے کررہى ہوں۔حافظہ ہونے کى حيثيت سے اس دفعہ رمضان میں تراویح پڑھانے کی بھی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔
3) میرے خیال میں موجودہ حالات میں عید ہمیں گھر پہ ہی منانی چاہیے، رہی بات رشتہ داروں کی، تو ان سے آن لائن ملاقات کر سکتے ہیں اور عيدى بھی آن لائن ہى ٹرانسفر کی جاسکتی ہے یا پھر وبا کے ختم ہونے کے بعد جب مليں، تب بھی عیدی دی جا سکتی ہے۔
4) جی بالکل کبھی کبھار والدین کے ساتھ امور خانہ داری میں اور بہنوں کو ہوم ورک کروانے میں مدد کرديتى ہوں۔اس کے علاوہ بیشتر اوقات اپنے والد کے ساتھ ان کے پچھلے ادھورے کام مکمل کرواتے گزر رہے ہیں۔
زويا کامران(نويں جماعت کى طالبہ)
1) کرونا ایک جان ليوا وبا ہے،جو پوری دنیا کو اپنى لپيٹ میں لے چکى ہے۔ یہ ایک ایسی وبا ہے جس کی اب تک ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ ہمیں اس وبا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی بھى مانگنی چاہیے اور اس رب سے اپنا رشتہ مضبوط کرننا ہے تاکہ اگر یہ وبا اللہ کی طرف سے عذاب ہے توٹل جائے اور ہم اِس سے محفوظ رہ سکیں۔
2) رمضان اور گرمیوں کی چھٹیاں اچھے سے گزارنے کی کوشش ہے۔قرآن و حدیث کا مطالعہ کررہى ہوں تاکہ ان فارغ اوقات سے مستفید ہوسکوں۔گھر میں رہ کر اللہ کی عبادت کے ذریعہ رب کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ اسکول کے امتحانات کی تیاری بھی ہو رہی ہے۔
3) ان حالات میں عيد بہت سادگی کے ساتھ منائی جائے گی۔ رشتہ داروں سے اُس طرح گلے لگ کے عید کى مبارک باد نہیں دے سکیں گے بلکہ فون پر رابطہ کرکے ہى مبارکباد دینا ہوگی۔شايد دعوتوں کا اہتمام بھی نہیں ہوگا- سب اپنے اپنے گھروں میں رہیں گے۔نماز عید کی بھی شايد پہلے جيسى تیاری نا ہو، جس طرح کی جاتی تھی۔
4) والدین اور دیگر بہن بھائیوں کی مدد کرتی ہوں والدین کا گھر میں ہاتھ بٹا کر اور بہن بھائیوں کی پڑھائی میں مدد کرکے، اُن کو نماز اور قرآن سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہوں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اکٹھے زيادہ وقت گزارنے کا بھی موقع مل رہا ہے۔
منیب سعد بارى (دسويں جماعت کے طالبعلم)
1) میں اس بارے میں الگ سوچ رکھتا ہوں _میرے نزديک کرونا ایک وبا تو ہے لیکن اتنی بڑی نہیں جتنا اسے دکھايا اور بتايا جارہا ہے۔
2) اسکول بھی بند ہیں اور امتحانات بھی آگے بڑھ گئے،ہوم ورک بھی نہیں ملا،کچھ بھی کرنے کو نہیں۔ اس لیے چھٹیاں بہت بور ہوکر گزر رہی ہیں۔
3) عیدالفطر اللہ کى طرف سے خاص تحفہ ہے سو ہمیں عید ویسے ہی گزارنی چاہیے جیسے پہلے گزارتے ہیں۔
4) زيادہ نہیں ، تھوڑی بہت مدد امی کے ساتھ انکے کاموں ميں کروا ديتا ہوں جيسے کپڑے استری کرنا یا صفائی کرنے ميں ہاتھ بٹانا-
سمعيہ اصغر:(طالبہ کالج)
1) کرونا ايک عالمى وبا ہے جو بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ پاکستان اس سے جلد چھٹکارا حاصل کر لے گا کیونکہ گرمیاں شروع ہوچکی ہیں اورسننے میں آيا ہے کہ یہ وائرس گرمیوں میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتا۔
2) گرمیوں کی چھٹیاں زیادہ تر گھر کے کام کرتے گزر رہے ہیں۔مجھے مطالعے کا شوق ہے ان چھٹیوں میں مختلف قسم کی کتابیں پڑھ رہی ہوں،جن میں موٹیویشنل،تاريخ کی کتابیں شامل ہیں۔اس کے علاوہ کورس کى پڑھائى بھى ہو رہى ہے۔
3) عید کی تیاریوں کے لیے بازار تو نہیں جایا جاسکتا تھا اس لیے شاید اس بار عید گھر میں ہی رہ کر منانى پڑے گى اور دعا کریں گے کہ کرونا جلد ختم ہوجائے۔
4) جی بالکل میں اپنے والدين اور بہن بھائیوں کے چھوٹے موٹے کرتی ہوں، جو وہ نہیں کرسکتے یا پھر پھر کہیں اور مصروفيت کے باعث نہيں ہوپاتے۔ اس کے علاوہ کوشش ہوتی ہے کہ موبائل سے زيادہ بہن بھائی اور والدین کے ساتھ وقت گزارا جائے۔
علی عرفان (آٹھويں جماعت کے طالب علم)
1) میں سوچتا ہوں کہ اللہ تعالی تمام دنیا کو اپنی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ مسلمان جو نمازيں نہیں پڑھتے انہيں ديکھ رہے ہیں کہ اب بھی پڑھتے ہیں يا نہیں۔
2) جب چھٹیاں شروع ہوئی تو سب اچھا لگتا تھا لیکن جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے تب سے چھٹياں بہت بور ہو گئی ہیں۔ رمضان المبارک بھی گھر میں ہی گزر رہا ہے۔
3) میرے خیال میں ان حالات میں عید گھر پر ہی گزاری جائے تو اچھی بات ہے۔یہ وائرس اللہ کی طرف سے ہی ہے تو سب کو چاہیے کہ گھر پر ہی عيد اچھے طريقے سے گزاريں۔
4) میں اپنے والدین کی مدد تو کرتا ہوں لیکن بہنوں کى نہیں،وہ اپنا کام خود کرتی ہیں اور میں بھائی کے ساتھ مل کر کھيل کود اور مستياں کرتا ہوں۔
فاطمہ زاہد بھٹی(جماعت ہفتم کى طالبہ اور قرآن حفظ کررہى ہیں)
1: میں سوچتی ہوں کہ اللہ پر یقین ہو تو کرونا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔احتیاط تو بہرحال کرنا ہى چاہیے مگر اس سے ڈرنا نہیں ہے۔ ڈرنا تو اللہ سے چاہئيے جس نے يہ وائرس بھيجا ہے۔جب ہم اللہ سے ڈر کر معافی مانگیں گے تو کرونا کچھ نہیں کہے گا-
2)چھٹیاں رمضان سے پہلے ہى ہوگئيں تھيں تو جب سے ہى رمضان کی آمد کا انتظار کرتے ہوئے چھٹياں گزر رہى تھيں،نماز اور قرآن کے لئے وقت زیادہ مل رہا ہے۔مجھے اسٹوریز پڑھنے کا شوق ہے آجکل اخبار بھی روز ایک اسٹوری سنا رہے ہیں انہیں پڑھ کر انجوائے کر رہے ہیں۔
3۔ میرے خیال میں تو پہلے سے زیادہ اچھی گزرے گی کيونکہ فضول آنے جانے سے بچیں گے اور گھر کے اندر نہادھوکر صرف اللہ کے لئے اس کی دی ہوئی عید گزاریں گے۔پہلے تو کبھی ہم مہمان، کبھی میزبان اور اسطرح عید ختم ہوجاتى تھى۔اس مرتبہ عید بھی عبادت کرکے گزرے گی،ضائع نہیں ہوگی۔
4 ) میں ممّا،اور ڈیڈی کی مدد کرتی ہوں اور چھوٹی بہن اور بھائیوں کا سبق بھی سنتی ہوں ،کبھی ہوم ورک بھی کروادیتی ہوں۔ ویسے تو میری آپی ہی سب کی ہیلپ کرتی ہيں،ميرا بھی کام کرديتى ہیں،اس لئے زيادہ تر میں سبق یاد کرتی رہتی ہوں یا اخبار اور بکس پڑھتی ہوں۔
مختلف اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات کی گفتگو اور خیالات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرونا وبائى مرض کے ساتھ ساتھ ایک آزمائش بھی ہے۔ اس کا مقابلہ احتیاطی تدابیر اور دعاؤں سے ہی ممکن ہے۔ گھروں تک محدود رہ کر بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکتی ہیں اور تعطیلات کو ناصرف موثر بنایا جا سکتا ہے بلکہ صلاحیتوں کو سنوارنے کا يہ بہترین موقع ہے۔موجودہ حالات کے پیش نظر عيد الفطر بھى سادگى سے منانے پر اکتفا کرنا چاہیے، يہى وقت کا تقاضا ہے۔