طیارہ حادثہ :ڈیٹا اور وائس ریکارڈر پر تحقیقات فرانس میں ہوگی

329

کراچی/ اسلام آباد ( اسٹاف رپورٹر/ نمائندہ جسارت) کراچی ائرپورٹ سے متصل رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہونے والے پاکستان کی قومی ائرلائن کے مسافر طیارے کا ڈیٹا اور وائس ریکارڈر پر کام جون کی دو تاریخ سے فرانس میں شروع ہوگا۔فرانسیسی تحقیقاتی ماہرین کی ٹیم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا ہے کہ طیارے کے حادثے کی جگہ پر کام مکمل ہونے کو ہے۔‘ٹوئٹر بیان کے مطابق ‘فرانسیسی ماہرین کے ساتھ پاکستانی تفتیش کار بھی فرانس روانہ ہوں گے خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پندرہ سالہ پرانا یہ طیارہ فرانس میں تیار ہوا تھا۔22 مئی کو پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 کے ساتھ المناک حادثہ پیش آیا تھا۔ لاہور سے کراچی جاتے ہوئے قومی ائرلائن کا طیارہ کراچی ائرپورٹ پر لینڈنگ سے چند سیکنڈ قبل آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 97 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دو افراد زندہ بچ گئے تھے۔دوسری جانب حادثے میں جاں بحق مزید 4 افراد کی شناخت ہوگئی،جن میں 3بچے اور ایک خاتون شامل ہیں ،شناخت جاں بحق ہونے والے والوں کے دانتوں کے ذریعے ہوئی۔جن افراد کی شناخت ہوئی ان میں صدیق پولانی، آمنہ، نیلم اور برکت شامل ہیں، ان تمام کی شناخت ان کے دانتوں سے ہوئی،جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ طیارہ حادثے میں مرنے والے افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے اور سوختہ میتوں کی تشخیص آئندہ 48گھنٹوں میں مکمل ہو جائے گی۔ترجمان کا کہنا ہے کہ لاشوں کی شناخت کا عمل انتہائی پیچیدہ ہے، مسافروں کی سوختہ لاشوں کا عمل سندھ فرانزک ڈی این اے اور سیرولوجی لیبار ٹری جامعہ کراچی کے تحت کیا جارہا ہے۔ڈی آئی جی ایسٹ نعمان صدیقی کے مطابق 97 افراد میں سے 74 افراد کی میتیں شناخت کے بعد لواحقین کے حوالے کر دی گئیں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اب ایدھی سردخانے میں 14 جبکہ چھیپا میں 9 لاشیں موجود ہیں، 35 لاشوں کو ڈی این اے رپورٹ آنے کے بعد ورثا کے حوالے کیا گیا اور ایک ڈی این اے نمونا مسترد ہوا جس کا دوبارہ نمونا لیا جائے گا۔دوسری جانب حادثے میں جاں بحق ایک نوجوان مرزا وحید بیگ کے اہلِ خانہ اس بات سے پریشان ہیں کہ نہ تو میت ان کے حوالے کی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی اس بارے میں معلومات دینے کو تیار ہے۔ مرزا وحید بیگ کی بہن عنبر حسیب کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام کی جانب سے کبھی ایک دفتر تو کبھی دوسرے دفتر دوڑایا جا رہا ہے، کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، اْلٹا لواحقین سے بدتمیزی کی جا رہی ہے۔