انصاف، تحریک انصاف اور عوام کا اعتماد

691

وزیر اعظم عمران خان نیازی نے ملک میں عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے کمیٹی بناتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کا اعتماد عدالتی نظام پر متزلزل ہوا ہے ۔ عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان اوروفاقی وزیر قانون فروغ نسیم پر مشتمل ہے ۔ عدالتی نظام کی اصلاحات کے لیے وزیر اعظم نے کمیٹی میں جن لوگوں کو شامل کیا ہے ، ان کی اپنی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور ان پر ہی عدالتی نظام پر اثر انداز ہونے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں ۔ ہر حکمراں کی پہلے دن سے خواہش رہی ہے کہ عدلیہ اس کے گھر کی لونڈی ہو اور اس کے ہر جائز و ناجائز کام کی توثیق عدلیہ سے ہوسکے ۔ تاہم اس کام کے لیے عدلیہ کو نواز شریف کے دور میں جس طرح سے مسخر کیا گیا ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ نواز شریف کے دور میں عدلیہ پر کیا جانے والا حملہ آخری ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد عدلیہ کو آزادانہ مسخر کرنے کا گویا راستہ کھل گیا ۔ یہ کام پہلے بھی کیا جاتا رہا تھا مگر چوری چھپے تاہم جس طرح مشرف دور میں اور اس کے بعد دوبارہ سے نواز شریف و زرداری کے دور میں عدلیہ کو غلام بنانے کی کامیاب سازشیں کی گئیں ، وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا شرمناک باب ہے ۔ تحریک انصاف کے طویل دھرنے میں بھی یہ کوشش کی گئی۔ عمران خان نیازی کی پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف ہے ۔ عوام کو امید تھی کہ عمران خان کے برسراقتدار آنے سے ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا اور عدلیہ ایک مرتبہ پھر سے آزاد ہو کر غیر جانبدارانہ فیصلے کرسکے گی ۔ جس طرح سے عمران خان نے ہر مسئلے پر یو ٹرن لیا ، انہوں نے ملک میں بے لاگ انصاف کی فراہمی کے وعدے سے بھی یو ٹرن لے لیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ عدلیہ میں بے لاگ انصاف کی فراہمی کی صورتحال بد سے بدتر کی سطح پر پہنچ گئی ہے ۔ ہر حکمراں کی طرح عمران خان کی بھی یہی کوشش ہے کہ احتساب کے نام پر قائم اداروں کو مخالفین کے لیے استعمال کیا جائے اور اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو اقتدار کی چھتری تلے ہر قسم کی پناہ مہیا کی جائے ۔ جہاں تک ملک میں عدالتی نظام میں اصلاحات کی صورتحال ہے ،ا س کے لیے عمران خان کو کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے ، اس کے لیے تو چند انتظامی احکامات ہی کافی ہیں ۔ اس حقیقت سے بابر اعوان اور فروغ نسیم سمیت کون واقف نہیں ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو کچھ اس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے کہ یہاں پر انصاف کے سوا ہر چیز ممکن ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ برسوں مقدمات بغیر کسی فیصلے کے لٹکے رہتے ہیں، اہم مقدمات کے فیصلے ہونے کے باوجود مہینوں اور بعض اوقات برسوں بھی محفوظ رکھنے کی مثالیں موجود ہیں ۔ جب ملک کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے تو ججوں اور عدالتی عملے کی تعداد میں بھی اسی کے تناسب سے اضافہ ہونا چاہیے مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ ججوں کی موجودہ تعداد بھی پوری نہیں ہے اور ان کی کئی اسامیاں خالی پڑی ہیں ۔ ایک ایک دن میں ججوں کے سامنے ساڑھے تین سو مقدمات کی سماعت کی فہرست ہوتی ہے جو عملی طور پر ناممکن ہے اس لیے اکثر مقدمات سماعت کے بغیر ہی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیے جاتے ہیں ۔ اصولی طور پر ہر جج کے سامنے سماعت کے لیے اتنے ہی مقدمات پیش کیے جانے چاہییں ، جتنے سماعت کیے جاسکیں اس کے علاوہ ہر جج کو پابند بنانا چاہیے کہ وہ ایک معین مدت میں مقدمے کو فیصل کرے نہ کہ انہیں برسوں لٹکا کر رکھے ۔ اسی طرح ماتحت عدالتوں کے ججوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے کیے گئے فیصلوں کا آڈٹ بھی ضروری ہے ۔ عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کی اکثریت اعلیٰ عدلیہ میں جا کر یکسر تبدیل ہوجاتی ہے ۔ اس سے ایک جانب تو یہ تاثر ملتا ہے کہ حتمی فیصلہ اعلیٰ عدلیہ میں ہی ہوگا جس سے اعلیٰ عدلیہ پر کام کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے ، دوسرے ماتحت عدلیہ کا تاثر عوام میں انتہائی خراب ہے ۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ماتحت عدلیہ کے فیصلے کیوں اعلیٰ عدلیہ میں جا کر تبدیل ہوتے ہیں ۔ اسی طرح خصوصی عدالتوں کے بارے میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ ان عدالتوں میں سرکاری پراسیکیوٹر کی جانب سے دی گئی ہدایات کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں خصوصی عدالتوں کے فیصلے یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ یا تو خصوصی عدالتیں ختم کی جائیں یا پھر ان عدالتوں کے ججوں کے فیصلوں کو جانچا جائے کہ وہ میرٹ پر کیوں نہیں تھے ۔ جس طرح سے ملک میں کرپشن عام ہے ، یہی شکایات عدلیہ کے بارے میں بھی زبان زد عام ہے ۔ عمران خان کو کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان میں سے بیشتر انتظامی مسائل ہیں ۔ بابر اعوان اور فروغ نسیم دونوںہی وکیل ہیں اور عدلیہ اور عدالتی نظام سے خوب واقف ہیں ، تو پھر اس کی بہتری کے لیے کسی قانون سازی کی کیا ضرورت ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان نے ان دونوں صاحبان کو عدلیہ کے گھوڑے کو قابو کرنے کا مشن سونپ دیا ہے ۔ اگر انصاف کے نظام پر عوام کا اعتماد مجروح ہوا ہے تو تحریک انصاف پر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔