صحافی عزیز میمن کو قتل کیا گیا،موت طبعی نہیں تھی،اے آئی جی سندھ

172

نوابشاہ ( رپو رٹ کاشف رضا) عزیزمیمن قتل کیس میں مرکزی ملزم مشتاق سہتوکاڈی این اے میچ کرگیا ہے۔اے آئی جی غلام نبی میمن۔ کیس میں مزیدپانچ ملزمان کی گرفتاری باقی ہے ۔اے آئی جی کانواب شاہ میں میڈیاکومزیدچارملزمان کے نام بتانے سے گریز۔ ملزمان نے 16 فروری کوقتل سے دوہفتے پہلے پلاننگ کی،قتل کیس میں مجموعی طورپر86 ڈی این اے کرائے گئے۔تفصیلات کے مطابق عزیرمیمن قتل کیس جی آئی ٹی کے سربراہ اے آئی جی غلام نبی میمن نے نواب شاہ میں میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ آج ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عزیزمیمن کاقتل ہواتھا۔اے آئی جی غلام نبی میمن نے کہاکہ عزیزمیمن قتل کیس میں مرکزی ملزم مشتاق سہتوکاڈی این اے میچ کرگیاہے۔ اے آئی جی غلام نبی میمن نے کہا کہ ملزمان نے خود کوچھپانے کی بہت کوشش کی لیکن قانون کی گرفت سے نہیںبچ سکے۔ تفتیش کے دوران تمام اداروں نے مکمل تعاون کیا، قتل کیس میں اب تک تین ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے، مزید پانچ کو گرفتار کرنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اعترافی بیان کے بعد ملزم نذیر سہتو کو جوڈیشل اور دیگر دو ملزمان کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔اے آئی جی سندھ نے بتایا کہ صحافی عزیزمیمن کو قتل کیا گیا۔ موت طبعی نہیں تھی، عزیز میمن کو دشمنی پرقتل کیا گیا، ملزم نذیر سہتو کا ڈی این اے میچ کر گیا، نذیر نے تفتیش کے دوران مزید ملزمان کے نام بھی بتائے اور عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا۔انہوں نے بتایا کہ مرکزی ملزم کا نام مشتاق سہتو ہے جو قتل کا ماسٹر مائنڈ تھا، میں کوئی غیرمصدقہ بات نہیں کروں گا، عزیز میمن کو دشمنی کی بنا پر قتل کیا گیا، مزیدتحقیقات جاری ہے۔اے آئی جی غلام نبی میمن نے مزید کہاکہ کیس میں پانچ ملزمان کی گرفتاری باقی ہے۔اے آئی جی کاکہناتھاکہ عزیزمیمن قتل کیس کے چارملزمان کے نام ابھی نہیں بتاسکتے۔ عزیزمیمن قتل کیس میں مجموعی طورپر86 ڈی این اے کرائے گئے۔ شہید صحافی عزیز میمن کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری پر جرنلسٹس کونسل نے سندھ پولیس کا شکریہ ادا کرتے ہوے مرکزی ملزم مشتاق سہتو کی گرفتاری کے ذریعے قتل کے محرکات سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔شہید صحافی عزیز میمن کے بھائی حفیظ میمن نے تفتیش پر اعتماد کے اظہار کے بعد جے آئی ٹی میں شامل افسران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے شہید عزیز میمن کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ جیکب آباد میں قتل ہونیوالی صحافی ذوالفقار مندرانی کے قاتلو کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔