مرد مجاہد شہید محمد اسلم مجاہد

1207

قاسم جمال
30مئی کی تاریخ جب بھی آتی ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ دہشت، وحشت اور درندگی کی سیاست کیسے کیسے گوہر نایاب ہیرے کھا گئی۔ شہید محمد اسلم مجاہد ایک شخصیت کا نام نہیں ایک فکر کا نام ہے۔ وہ گورنمنٹ کالج کورنگی نمبر چھ میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور طلبہ سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ اسلم مجاہد راجپوت مارواڑی برادری کے چشم وچراغ تھے۔ ان کی برادری اور خاندان کے لوگ شاہ تراب الحق قادری کے مریدوں میں سے ہیں۔ لیکن اسلم مجاہد بھرپور طریقے سے جمعیت سے وابستہ رہے۔ قومی اتحاد اور کالج کے زمانے میں کئی مرتبہ وہ جیل بھی گئے۔ اسلم مجاہد اپنا سب کچھ جمعیت سے وابستہ کر چکے تھے۔ وہ اپنی شادی سے دو چار روز قبل بھی طلبہ تنظیم کے ایک جھگڑے میں تھانے میں بند ہوگئے۔ شہید محمد اسلم مجاہد کے والد بزرگوار اپنے تین بڑے بھائیوں حاجی رفیق، حاجی یاسین اور حاجی ستار کا جوڑیا بازار میں ہول سیل کا ترازو باٹ کا خاندانی کام تھا پورے ملک میں ان کے ترازو بٹے فروخت ہوتے تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں جب سیر کے باٹ ختم کر کے کلو کے بٹوں کا سسٹم شروع ہوا تو ان کے خاندان کو بہت فائدہ ہوا اور کاروبار میں بڑی ترقی ہوئی۔ اسلم مجاہد کی شادی کے دنوں میں ان کی گرفتاری پر ان کے والد شدید ناراض ہوئے اور وہ جماعت اسلامی کے مقامی رہنما اکرم الدین کامو بھائی کے پاس گئے اور ان سے شکایت کی کہ جماعت اسلامی اور جمعیت نے ان کے بیٹے کو کہیں کا نہیں رکھا ہے اور اس کی دو روز کے بعد شادی ہے اور یہ تھانے میں بند ہے۔ کامو بھائی نے فوری طور پر جماعت اسلامی کے ذمے داران سے رابطہ کیا اور بڑی مشکل سے اسلم مجاہد کو رہائی دلوائی۔
قومی اتحاد کی تحریک میں اسلم مجاہد پیپلز پارٹی کے سامنے ایک چٹان بن کر کھڑے ہوئے تھے۔ بلدیاتی انتخاب کا موقع آیا تو اسلم مجاہد کو بھی جماعت اسلامی کی جانب سے ٹکٹ دیا گیا اور وہ اپنے شدید ترین مخالف حاجی ننھے خان کو شکست دے کر کامیاب ہوگئے۔ اسلم مجاہد میں شروع ہی سے قائدانہ صلاحیتیں تھی اور انہوں نے عبدالستار افغانی کو کامیاب کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اسلم مجاہد نے لانڈھی کورنگی کے کونسلروں پر مشتعل اخوت گروپ کے نام سے ایک بلدیاتی کونسلرز کا گروپ قائم کیا۔ یہ گرو پ اسلم مجاہد کی قیادت میں کام کرتا تھا اور یہ گروپ مشاورت کے ساتھ افغانی صاحب سے ملتا اور علاقے میں بڑے بڑے ترقیاتی کام کروائے گئے۔ صرف اسلم مجاہد نے ہی اپنی یونین کمیٹی میں خواتین کے لیے پردہ پارک بارہ دری، اسپورٹس کمپلیکس، کورنگی نمبر ڈھائی کا بلدیہ کا میٹرینٹی ہوم، کھیل کے گراونڈ، اسپتال، پارک بنا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔ 1985میں جب قومی اور صوبائی اسمبلی کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو پی ایس 94سے اسلم مجاہد کو جماعت اسلامی کی جانب سے ٹکٹ دیا گیا۔ ان کے مقابلے میں ان کے راویتی حریف حاجی ننھے خان جے یوپی اور اہل سنت کی جانب سے انہیں بھرپور حمایت حاصل تھی جبکہ سواد اعظم کے نام سے دیوبندی علماء کا ایک گروپ پورے شہر میں کھڑا کیا گیا تھا اور اس گروپ نے جماعت اسلامی کو پوری طرح نقصان پہنچایا جماعت اسلامی کو شہر میں صرف قومی اسمبلی کی دو نشستیں حاصل ہوئیں ایک نشست پروفیسر عثمان رمز صاحب اور دوسری نشست مظفر احمد ہاشمی صاحب نے حاصل کی تھی۔ کورنگی میں اسلم مجاہد کے ساتھ مزدور رہنما پروفیسر شفیع ملک صاحب مقابلہ کر رہے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں مولانا ولی رازی اور نظام مصطفی گروپ کے عثمان خان نوری کھڑے تھے۔ شفیع ملک صاحب نے تقریباً 26000 ووٹ، ولی رازی صاحب نے 2200ووٹ حاصل کیے جبکہ عثمان خان نوری تقریباً 28000 ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے۔ قومی اسمبلی میں بدترین شکست کے بعد سواد اعظم نے صوبائی اسمبلی کے انتخاب کا بائیکاٹ کر دیا جس کا فائدہ جماعت اسلامی کو ہوا اور کراچی سے اسلم مجاہد، نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ، عباس باوزیر، اطہر قریشی، اخلاق احمد اور حیدرآباد سے عبدالوحید قریشی کامیاب ہوگئے۔ بعد میںعباس باوزیر سندھ حکومت میں شامل ہوگئے اور غوث علی شاہ کے وزیر محنت بنے۔
اسلم مجاہد نے دوسال دو ماہ کی ایم پی شپ میں جو کارنامے سرانجام دیے اسے آج بھی کورنگی لانڈھی کے عوام یاد کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے تعاون سے ملیر ندی پشتے کی تعمیر اور شہید ملت ایکسٹینشن اسلم مجاہد کا ہی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ اسکول کالج، پانی اور سیوریج سسٹم کی بہتری کے لیے بڑی بڑی لائنیں ڈلوائی گئیں۔ دو سو سے زائد افراد کو سرکاری ملازمتوں دی گئی۔ سندھ حکومت ودیگر قوتوں نے اسلم مجاہد پر بڑا زور لگایا اور انہیں وزارت کی لالچ دی گئی۔ سینیٹ کے الیکشن میں لوگ نوٹوںکے بریف کیس لیکر ان کے گھر پر آئے لیکن اسلم مجاہد نے انہیں دروازے ہی سے واپس کر دیا۔ اسلم مجاہد کے دور ہی میں لانڈھی داود چورنگی پر ٹرین اور منی بس حادثہ ہوا تھا۔ اس وقت کے چیف سیکرٹری سید سردار احمد تھے جو اپنے ساتھ الطاف حسین کو بھی جائے حادثے پر لائے تھے اور اسلم مجاہد کی اس وقت الطاف حسین سے تلخ کلامی اور تکرار بھی ہوئی تھی۔ اس حادثے کے بعد ایم کیو ایم کو بیوروکریسی نے پروان چڑھایا اور بعد میں چشم فلک نے دیکھا کہ چیف سیکرٹری سندھ ریٹائر منٹ کے بعد ایم کیو ایم میں شامل ہوئے اور ان کے سینئر وزیر بھی بنے۔ ایم کیو ایم بننے کے بعد اسلم مجاہد پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ان کے کام میں تیزی آئی۔ کراچی آپریشن کے دوران ان کے گھر پر عوام کا ہجوم لگا رہتا اور وہ بغیر کسی غرض کے شریف لوگوں کو تھانے سے چھڑا دیتے۔ پولیس اہلکار اور تھانے کے ایس ایچ او انہیں سمجھاتے کہ یہ ناقابل اعتبار لوگ ہیں آپ ان لوگوں کی زیادہ مدد نہ کریں لیکن اسلم مجاہد نے ہزاروں لوگوں کی مدد کی۔ مرزا لقمان بیگ کی شہادت کے بعد انہیں ضلعی امارت کی ذمہ داری دی گئی اور انہوں نے اس پر خطر دور میں دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کورنگی لانڈھی میں جماعت اسلامی کے کام کو مضبوط بنایا۔
نعمت اللہ خان کے دور نظامت میں ق لیگ کے حلیم شیخ نے انہیں چیلنج کیا کہ وہ جماعت اسلامی کو کورنگی لانڈھی میں کامیاب نہیں ہونے دیںگے۔ اسلم مجاہد نے قصر ناز میں حلیم عادل شیخ کے اس چیلنج کو ناصرف یہ کہ قبول کیا بلکہ کورنگی ٹائون سے عبدالجمیل خان اور لانڈھی ٹائون سے محمد شاہد کو کامیاب کرا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔ کورنگی صنعتی ایریا کے صنعت کاروں کی تنظیم کاٹی کے بھی اسلم مجاہد وائس چیئرمین تھے۔ عبدالحسیب خان جب کاٹی کے چیئرمین بنے تو اسلم مجاہد کاٹی کے وائس چیئرمین منتخب ہوئے اور اسلم مجاہد نے کاٹی میں رہتے ہوئے کورنگی لانڈھی صنعتی ایریا کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کیا اور روڈ آٹھ ہزار، جام صادق پل کی ازسرنو تعمیر اور باغ کورنگی کازوے کی تعمیر میں اسلم مجاہد کا کلیدی کردار ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی جانب سے ہونے والے انتخاب میں بھی اسلم مجاہد بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے تھے لیکن راتوں رات اسلم مجاہد کی کامیابی کو ناکامی میں بدلا گیا اور ہزاروں جعلی ووٹ رات کے اندھیرے میں کھپائے گئے۔ ہم نے اسلم مجاہد کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے والو کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دھاندلی سے کامیاب ہونے والا ایم کیو ایم حقیقی کا نمائندہ چھ آٹھ ماہ میں ہی ٹیشن سے انتقال کرگئے۔ اسلم مجاہد کی جیتی ہوئی نشست کو پیسے اور طاقت کے ذریعے ہڑپ کرنے والوں سے اللہ نے ان کی چھت ہی چھین لی اور ان کے عالیشان محل نما مرکز مٹی کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ شہادت سے ایک روز قبل عوامی کالونی اسٹاپ پر جب کورنگی سے شاہ فیصل کو ملانے والے عظیم الشان فلائی اوور کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا۔ نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کی موجودگی میں شہید محمد اسلم مجاہد نے اپنی تقریر میں ان سے کورنگی لانڈھی کی عوام کی جانب سے اظہار تشکر کیا اورکہا کہ ہم نے تو یہاں آپ سے ایک سڑک بنانے کی بات کی تھی آپ نے تو ایک ارب تیس کروڑ روپے لاگت کا عظیم الشان منصوبہ تیارکیا ہے۔ کو رنگی لانڈھی اور شاہ فیصل کے عوام آپ کا یہ احسان کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے۔ کازوے کی افتتاحی تقریب میں میرے بالکل برابر کی نشست پر جماعت اسلامی کے رہنما جمال طاہر بھی تشریف فرما تھے اور تقریب سے واپسی پر انہیں ان کے گھر کے قریب دہشت گردوں نے گولی مار کر شہید کر دیا۔ اگلے دن جمال طاہر کا نماز جنازہ لانڈھی پولیس اسٹیشن گراونڈ پر تھا۔ علاقے میں شدید کشیدگی پھیلی ہوئی تھی۔ جماعت اسلامی کے کارکنان مشتعل تھے۔ اسلم مجاہد ودیگر ذمہ داران انہیں صبر کی تلقین کر رہے تھے۔ نماز جنازہ کے بعد اچانک چاروں طرف سے شدید فائرنگ شروع ہوگئی ایک گولی ٹائون ناظم لانڈھی کی گاڑی پر بھی تاک کر ماری گئی مگر خوش قسمتی سے گولی گاڑی کی فرنٹ اسکرین کے اوپر ہی پھنس گئی اور محمد شاہد بال بال بچ گئے۔ جمال طاہر کو تدفین کے لیے ریڑھی قبرستان لے جایا گیا اور پورے راستے شدید کشیدگی تھی۔ قبرستان سے واپسی پر موت اسلم مجاہد کا انتظار کر رہی تھی۔ اسلم مجاہد رانا شکیل کی کار میں سوار تھے۔ گاڑی رانا شکیل کا ڈرائیور چلا رہا تھا۔ محمد اسلام صاحب کی کار جمال طاہر کے گھر کے قریب کھڑی تھی۔
محمد اسلام صاحب کو نادرا آفس والی گلی پر اتارا ہی تھا کہ پیچھے سے بیس تیس لڑکوں کا ایک غول آگیا انہوں نے رانا شکیل کی گاڑی کو گھیر لیا اور رانا شکیل اور ان کے ڈرائیور کو گاڑی سے نکال کر تشدد کرنا شروع کر دیا اچانک ایک پبلک ٹرانسپورٹ کی بس آگئی اور اس کی رفتار جمپ پر ہلکے ہوئی تو رانا شکیل اور ان کے ڈرائیور اپنی جان بچانے کے لیے دوڑ کر چلتی بس میں چڑھ گئے اور ان دہشت گردوں سے بچ نکلے۔ دوسری جانب اسلم مجاہد کار میں اکیلے ہی بیٹھے تھے۔ چار دہشت گرد کار میں بیٹھے۔ اسلم مجاہد کو فاروق ولاز کے قریب گراونڈ میں لے جایا گیا اور انہیں وہاں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں انہیں قریبی کسی زیر تعمیر مکان میں لے جا کر بدترین شددکا نشانہ بنایا ان کے منہ پر بلیک اسپرے کیا گیا اور انہیں سینے اور سر میں گولی مار کر شہید کیا اور ان کی لاش اسی گاڑی میں ڈال کورنگی نمبر چھ کے ٹیلی فون ایکسچینج کے پاس دہشت گرد قاتل چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے اسلم مجاہد قتل کیس میں جن افراد کو نامزد کیا ان میں سے سیکٹر انچارچ فاروق بیگ اور ایس ایچ اوانوار جعفری تو اللہ کی پکڑ میں آگئے ہیں۔ شہید محمد اسلم مجاہد جماعت اسلامی کا ایک چمکتا ہوا ستارہ تھے۔ ان کی جدوجہد قربانی اور ان کا خون ضائع نہیں ہوگا اور ان شاء اللہ شہداء کا خواب پورا ہوگا اور پاکستان میں جماعت اسلامی کی جلد حکومت قائم ہوگی اور پاکستان میں مدینے والانظام عملی طور پر نافذ ہوگا۔