ٹڈی دل اور حکمرانوں کی نااہلی

540

وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، ٹڈی دل ملک میں کسانوں کے لیے قدرتی آفت ثابت ہوا ہے اور خدشہ ہے کہ کسانوں کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ٹڈی دل ایک ایسی آفت ہے جس سے بچا جاسکتا تھا مگر پاکستان کی بیوروکریسی اور حکومت نے حالات کے بے قابو ہونے کا انتہائی صبر اور استقامت کے ساتھ انتظار کیا ۔ زراعت سے متعلق حلقے مسلسل حکومت کی توجہ اس طرف دلارہے تھے تاکہ بروقت اقدامات کیے جاسکیں اور اس بڑے نقصان سے بچا جاسکے ۔ کورونا کے نام پر کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی بناء پر پہلے ہی صنعتی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کچھ آسرا زرعی پیداوار سے تھا توحکومت نے انتہائی مہارت سے اس امید کا خاتمہ کردیا ۔ سوالات تو بہت سارے ہیں ۔ جب ملک میں ٹڈی دل کے بارے میں خبر دینے کی ذمہ داری محکمہ موسمیات کی ہے تو اس نے اپنی اس ذمہ داری کو کیوں پورا نہیں کیا ، ٹڈی کے بے قابو ہونے سے پہلے اس کے خاتمہ کی ذمہ داری پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی ہے تو اس نے اس ذمہ داری کو کیوں پورا نہیں کیا ، اسپرے کے لیے چار جہازوں پر مشتمل پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے پاس فضائی بیڑا موجود ہے تو اسے حالات کو دیکھتے ہوئے قابل استعمال کیوں نہیں بنایا گیا ۔ اگر پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے پاس موجود جہاز ناکارہ اور صرف ایک پائلٹ ہے تو صدر مملکت ، وزیر اعظم سمیت چاروں وزرائے اعلیٰ اور گورنر صاحبان کے پاس موجود جہازوں کو کیوں نہ اس ہنگامی حالت میں طلب کرلیا گیا ۔ اب تو پائلٹ والے جہازوں کا زرعی اسپرے کے لیے استعمال ہی متروک ہوگیا ہے بلکہ اس کے لیے بڑے ڈرون استعمال کیے جاتے ہیں تو پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے کیوں اس مقصد کے لیے جدید ڈرون حاصل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی ۔ اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ متاثرہ کسانوں کو پچاس ارب روپے کا زرتلافی ادا کیا جائے گا ۔ یہ پچاس ارب روپے کی کسانوںکو دیا جانے والا زرتلافی نہیں ہے بلکہ قوم کو لگایا جانے والا پچاس ارب روپے کا ٹیکا ہے ۔ یہ ٹیکا اس سیکڑوں ارب روپے کے نقصان کے علاوہ ہے جو زرعی پیداوار کے ٹڈی کے شکار ہونے اور درآمد کی صورت میں ملک کے ٹیکس دہندگان بھگتیں گے ۔ ویسے بھی یہ پچاس ارب روپے کا زرتلافی اپنوں اپنوں میں بٹ جائے گا اور درمیانے اور چھوٹے درجے کے کسان یونہی دربدر پھرنے پر مجبور ہوں گے ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میںایسا کوئی ادارہ ہی موجود نہیں جو اس قسم کے اقدامات پر ذمہ داروں کی پکڑ کرسکے ۔ ٹڈیوں کو تلف کرنے کا جو کام چند کروڑ روپے میں ہوسکتا تھا ، اب اس کی جگہ قوم سیکڑوں ارب روپے کا نقصان برداشت کرے گی اور ذمہ دار یونہی بانسری بجاتے رہیں گے ۔ ملک پر جو بھی آفت آئے ، اس سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کا آزمودہ طریقہ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہے۔ الزام تراشی کے اس کھیل میں اتنی زور سے دھول اڑائی جاتی ہے کہ اس میں ہر چیز چھپ جاتی ہے ، اسی اثناء میں کوئی نیا اسکینڈل آجاتا ہے اور یوں سب بچ جاتے ہیں ۔ دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت میں جتنے بھی ذمہ دار ہیں وہ سب کے سب ہر ڈاکے میںبرابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔