قرآن میں میرا ذکر…

815

مولانا مزمل حسین
قرآن کریم کی ایک بہت عجیب آیت ہے، جس میں قرآن کی ایک صفت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا ذکر ہے‘‘۔ (انبیاء)
’ذکر‘ کے مفسرین نے دو معنی لکھے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اس میں تمہاری رفعت اور شرافت ہے، کیوں کہ جب انسان اس پر عمل کرے گا تو اسے شرف حاصل ہو گا اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اس کتاب کے بغیر کوئی شرف حاصل نہیں ہوتا۔
سیدنا عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں ایک مرتبہ اپنے تمام عاملوں کا اجتماع بلایا، اس میں تمام عامل شریک ہوئے، اس اجتماع میں مکہ کے عامل بھی شریک ہوئے۔ اس اجتماع میں مکہ کے عامل کو بڑی تاکید کے ساتھ بلایا، اس وقت مکہ کے عامل عبداللہ بن حارث بن نافع تھے۔ جب یہ پہنچے تو عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ میں اپنا قائم مقام کس کو بنا کر آئے ہو؟ عبداللہ بن حارث نے جواب دیا کہ میں نے اپنے فلاں غلام کو قائم مقام بنایا ہے۔
یہ سن کر عمرؓ چونک پڑے، کیوں کہ مکہ بڑا حساس علاقہ ہے اور وہاں ہر وقت مختلف اطراف وبلاد سے لوگ آتے رہتے اور ہر وقت شورش کا بھی خطرہ رہتا تھا تو آپ کو خیال ہوا کہ معلوم نہیں لوگ ایک غلام کو اپنا حاکم تسلیم کرتے ہیں یا نہیں اور یہ شخص تو بہت سمجھ دار ہے، اس نے ایسا کیوں کیا؟ سیدنا عمرؓ نے پوچھ لیا کہ تم نے اس غلام کو کیوں قائم مقام بنایا۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ شخص رات کو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور رات بھر قیام کرتا ہے اور دن میں اس کے مطابق عمل کرتا ہے، اس وجہ سے میں نے اسے اپنا قائم مقام بنایا۔ عمرؓ یہ سن کر فوراً پکارا اٹھے کہ بس اس کے لیے یہی کافی ہے۔ میں نے نبی اکرمؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو بلند کرے گا اور بہت سے لوگوں کو پست کرے گا‘‘۔
یہ کتاب ایک معیار اور ایک کسوٹی ہے، جب تک مسلمان اس کتاب پر عمل کرتے رہے اور اس کو اپنا مرکز ومحور بنائے رکھا تو مسلمان ترقی کرتے رہے اور ترقی کے بام عروج تک جا پہنچے، لیکن جب مسلمانوں نے اسے چھوڑ دیا تو وہ ذلت اور پستی کی طرف گرتے چلے گئے اور دوسروں کے غلام بن کر رہ گئے اور اس قرآن کو چھوڑ دینے کے نتیجے میں دوسروں کے ماتحت بن کر مسلمان ذلتوں کے درجے طے کر رہے ہیں ،اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اس کتاب میں تمہارا ذکر ہے، تمہاری شرافت اور عظمت ہے۔
بعض مفسرین نے ذکر کے معنی بیان کیے ہیں کہ ذکر سے مراد ’’تذکرہ‘‘ ہے کہ یہ کتاب ایک آئینہ ہے اور اس میں ہر شخص اپنا تذکرہ معلوم کرسکتا ہے، اس سلسلے میں ایک دلچسپ اور عجیب واقعہ نقل کیا گیا ہے:
امام احمد بن حنبلؒ، جو مشہور امام اور محدث ہیں، ان کے ایک شاگرد محمد بن نصر مروزی نے ایک کتاب ’’قیام اللیل‘‘ کے نام سے لکھی ہے، انہوں نے اس کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ احنف بن قیس، جو جلیل القدر تابعی اور عرب کے سردار بھی تھے، ایک مرتبہ بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہی آیت پڑھی کہ قرآن کریم میں تمہارا تذکرہ ہے۔ یہ آیت اس سے بھی پہلے کئی بار پڑھی اور سنی ہوگی، لیکن اس وقت یہ آیت سن کر چونک پڑے کہ اچھا اس میں ہمارا تذکرہ ہے، فوراً گھر پہنچے اور خادم سے کہا کہ قرآن شریف لاؤ، اس میں اپنا تذکرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ قرآن کریم پڑھنا شروع کیا، پڑھتے پڑھتے ایک آیت پر پہنچے، جس میں کچھ لوگوں کا تذکرہ تھا کہ وہ:
’’رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور صبح ( سحر) کے اوقات میں مغفرت اور بخشش طلب کیا کرتے تھے او ران کے مال میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں دونوں کا حق ہوتا تھا‘‘۔ (الذاریت)
کچھ لوگوں کا حال یہ نظر آیا کہ:
’’ان کے پہلو بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (السجدہ)
کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:
’’جو مال داری اور تنگی میں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں‘‘۔ (آل عمران)
’’اور دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں، خواہ وہ خود زیادہ محتاج ہی ہوں‘‘۔ (الحشر)
’’اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں‘‘۔ (الشوریٰ)
’’اور جو اپنے پروردگار کی بات قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔
یہاں پہنچ کر وہ رک گئے اور انہوں نے کہا کہ اے اللہ! میں اپنے حال سے بخوبی واقف ہوں اور ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، یہ تو بہت اونچے لوگ ہیں۔ دوبارہ پھر تلاوت شروع کی تو قرآن نے کچھ لوگوں کا تذکرہ کیا جن کا حال یہ تھا۔
’’جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ غرور کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں گے؟‘‘ (صافات)
کچھ اور لوگوں کا تذکرہ ان کے سامنے آیا کہ:
’’جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں او رجب اللہ کے علاوہ اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں‘‘۔ (المر)
یہ آیات پڑھ کر انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہاکہ اے خدا! میں ان لوگوں سے بری ہوں، پھر تلاوت کرنے لگے اور اپنا تذکرہ تلاش کرتے رہے ،یہاں تک کہ یہ آیت ان کو مل گئی، جس میں ذکر تھا کہ:
’’کچھ لوگ وہ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا اعتراف ہے، انہوں نے اچھے اور برے اعمال کو ملا جلا دیا تھا، قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے، بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ (التوبہ)
یعنی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اچھے اعمال بھی کیے ہیں اور کچھ برے اعمال بھی، لیکن ان کو ان گناہوں کا اعتراف ہے تو یہ آیت پڑھ کر یہ بزرگ بے ساختہ پکار اٹھے کہ ہاں! میں انہیں لوگوں میں سے ہوں اور یہی میرا تذکرہ ہے۔
غرض کہ قرآن ایک آئینہ ہے، جس میں ہر شخص اپنے عقائد واعمال کی جھلک دیکھ سکتا ہے۔