صحابہ کرامؓ کی نمازیں

3371

ابومحمد امام الدین
ایک بار سیدنا عمرؓ نماز پڑھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے، ترجمہ: ’’بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہوکر رہے گا۔ اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں‘‘۔ تو اس قدر روئے کہ روتے روتے آنکھیں ورم کر آئیں، صحابہ کرامؓ فیضان رسالت سے براہ راست فیض یاب تھے۔ انہوں نے آپؐ سے دین کے احکام واوامر کی تعلیم وتربیت پائی تھی اور نبیؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ نماز کی حقیقت واہمیت کیا ہے اور نماز کے لیے خشوع وخضوع اور حضور قلب کس قدر ضروری ہے؟ ان چیزوں کا مشاہدہ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے عمل میں کیا تھا، اس لیے صحابہ کرامؓ کی نماز آپؐ کی نماز کا پرتو اور عکس تھی۔
خشوع وخضوع کسے کہتے ہیں اور اس کی عملی صورت کیا ہوتی ہے، اسے صحابہ کرامؓ اور خاصان خدا کی نماز اور عبادت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سیدنا عمرؓ رات بھر جاگ کر بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھتے۔ آپؓ نماز میں ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر یا خدا کی عظمت وجلالت کا بیان ہوتا اور ان چیزوں سے آپؓ اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی۔ عبداللہ بن سداد بیان کرتے ہیں کہ میں پچھلی صف میں ہوتا تھا پھر بھی عمرؓ آیت: ’’میں اپنی مصیبت اور اپنے رنج کا دکھڑا اللہ ہی کے آگے روتا ہوں‘‘ پڑھتے اور اس زور سے روتے کہ میں ان کے رونے کی آواز سنتا۔ نماز میں عمرؓ کی گریہ وزاری کا واقعہ کچھ شاذ نہ تھا۔ اکثر ان پر یہ حالت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ ایک نماز میں عمرؓ نے یہ آیت پڑھی، ترجمہ: ’’جب گناہ گار لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے دوزخ کی ایک تنگ جگہ میں ڈال دیے جائیں گے تو موت موت پکاریں گے‘‘۔ (الفرقان) یہ آیت پڑھ کر آپؓ پر ایسا خوف وخشوع طاری ہوا اور آپ کی حالت اتنی غیر ہوئی کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوتا کہ آپ پر اس طرح کی آیتوں کا ایسا ہی اثر ہوا کرتا ہے تو سمجھتے کہ آپ واصل بحق ہوگئے۔
ایک بار فجر کی نماز میں سورہ یوسف شروع کی، جب اس آیت پر پہنچے، ترجمہ: ’’یوسف کی جدائی میں یعقوب کی آنکھیں روتے روتے سفید پڑ گئیں اور وہ جی ہی جی میں گھٹنے لگے‘‘ تو زار زار رونے لگے۔ یہاں تک کہ قرأت جاری رکھنا دشوار ہوگیا۔ مجبور ہوکر رکوع میں چلے گئے۔ صائب بن یزید اپنے باپ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ قحط کا زمانہ تھا، میں نے آدھی رات کو دیکھا کہ عمرؓ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے، اور دعا میں بار بار کہہ رہے تھے: ’’اے اللہ! ہم لوگوں کو قحط سے ہلاک نہ کر، اس بلا کو ہم سے دور کردے‘‘۔ (کنزالعمال)
سیدنا انسؓ جب رکوع سے کھڑے ہوتے تو اتنی دیر کھڑے رہتے کہ لوگ سمجھتے کہ وہ بھول گئے ہیں اور دوسجدوں کے درمیان بھی اتنی ہی دیر لگاتے کہ لوگوں کو یہی خیال ہوتا۔ (بخاری) سیدنا علیؓ کے ایک شاگرد کا بیان ہے کہ ایک بار علیؓ فجر کی نماز پڑھا کر دائیں جانب رخ کرکے بیٹھ گئے۔ آپؓ کے چہرے سے رنج وغم کا اثر ظاہر ہورہا تھا۔ طلوع آفتاب تک آپ اسی طرح بیٹھے رہے۔ اس کے بعد بڑے تاثر کے ساتھ اپنا ہاتھ پلٹ کر فرمایا: ’’خدا کی قسم! میں نے آپؐ کے صحابہ کو دیکھا ہے۔ آج ان جیسا کوئی نظر نہیں آتا، ان کی صبح اس حال میں ہوتی کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے، چہرے غبار آلود اور زرد ہوتے، وہ ساری رات اللہ کے حضور سجدے میں پڑے ہوتے، کھڑے کھڑے قرآن مجید پڑھتے ہوتے، کھڑے کھڑے تھک جاتے تو کبھی ایک پائوں پرکھڑے ہو کر سہارا دے لیتے اور کبھی دوسرے پائوں پر وہ خدا کا ذکر کرتے تو (کیف واثر سے) اس طرح جھومتے جیسے ہوا میں درخت حرکت کرتے ہیں اور خدا کے خوف سے ان کی آنکھوں سے اتنے آنسو بہتے کہ ان کے کپڑے تر ہوجاتے تھے۔ ایک اب کے لوگ ہیں کہ غفلت میں رات گزار دیتے ہیں‘‘۔ (احیاء العلوم) نماز کا وقت آتا تو علیؓ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا۔ ایک بار ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کا یہ کیا حال ہے؟ فرمایا کہ یہ اس بار کے اٹھانے کا وقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور پہاڑ پر پیش کیا تو ان سب نے اس بار کے اٹھانے سے ڈر کر انکار کردیا۔ (احیاء العلوم)