یوم تکبیر کی درد ناک کہانی

944

پاکستانی قوم نے کہیں گھروں میں بیٹھ کر اخبارات میں پڑھ کر پاکستان کو عالمی ایٹمی طاقت منانے کا دن گزارا۔ اسے منانا تو کہا نہیں جا سکتا۔ یوم تکبیر پاکستان کا سر ساری دُنیا میں فخر سے بلند کرنے کا دن ہے۔ لیکن پاکستانی حکمران پاکستان کی کسی کامیابی کو ناکامی بلکہ پائوں کی زنجیر بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے پہلے دھماکا تو کر لیا لیکن اس کے بعد سے سارے اقدامات مخالف سمت میں کیے جا رہے ہیں۔ آج یہ حال ہے کہ جس ایٹمی دھماکے نے 1998ء میں 28 مئی کو بھارت کی زبان بند کر دی تھی، دُنیا دم بخود رہ گئی تھی، عرب دُنیا میں پاکستانیوں کو لوگ سروں پر بٹھا رہے تھے۔ اس کی کہانی بھی بڑی درد ناک ہے۔ امریکا نے پاکستان کے ڈالر اکائونٹ منجمد کیے تو شریف خاندان کی خواتین ایک جلوس کی صورت میں اٹلی سے سوئٹزرلینڈ پہنچیں اور شریف خاندان کے تمام ڈالر اکائونٹس کو خالی کرا لیا۔ پھر پاکستانی قوم بھگتتی رہی اس کے ڈالر اکائونٹس منجمد ہو گئے۔ یہ پہلا حملہ تھا۔ اس کے بعد ایک نہایت سنگین حملہ پاکستان کے کمانڈو حکمران نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے اپنی جان بچانے کے لیے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پھنسا دیا۔ اب جان بچانے والوں کی اپنی جان پر بنی ہوئی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر جو الزام تھوپا گیا تھا اسے واپس لیا تو حقائق بتانے ہوں گے اور ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ 22 برس بعد بھی نہایت گھٹیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ جس شخص کی محنت سے قوم کو عالمی سطح پر وقار ملا پاکستان دُنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا تو اس کو کئی برس تک گھر پر قید رکھا گیا۔ اب بھی نقل و حرکت اس قدر محدود اور سخت نگرانی میں ہے کہ قومی ہیرو کے مجرم ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ ہر بات میں بھارت کو ناکوں چنے چبوانے، منہ توڑنے کا طعنہ دینے والے فوجی اور سول حکمرانوں کو اس وقت تو شرم آجانی چاہیے تھی جب بھارت نے اپنے ایٹمی سائنسدان اول فقیر زین العابدین عبدالکلام اے پی جے عبدالکلام کو صدر مملکت بنایا اور ہمارے حکمران نے اپنے ہیرو کو مجرم بنایا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہ ایٹمی قوت پر اب تک کا سنگین ترین حملہ ہے۔ ایک اور حملہ یہ ہوا کہ جس دھماکے نے بھارت کے ہوش اڑا دیے تھے اس کے ایٹم بم اب پٹاخوں جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ جو سب سے زیادہ بولتے ہیں شیخ رشید جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان نے ایک سیر، آدھا سیر اور ایک پائو کا ایٹم بم بھی بنایا ہوا ہے جب چاہیں جہاں چاہیں مار دیں گے ان سے اپنی ٹرین نہیں چل رہی۔ کہاں گئے وہ پائو پائو کے ایٹم بم… ایک اور ظلم یہ ہوا کہ ایٹمی قوت بننے کی کہانی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی جگہ دوسرے سائنسدان کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی 1974ء سے جاری کوششیں ایک ریکارڈ ہیں۔ اسی طرح ایٹمی دھماکے کے بارے میں بھی تاریخ بدلنے کی کوشش کی گئی۔ جنرل پرویز کے میڈیا منیجرز نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دھماکا فوج کے دبائو پر کیا گیا۔ لیکن ریکارڈ پر یہ حقیقت موجود ہے کہ 21 مئی 1998ء کو آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے نواز شریف کو الٹی میٹم دیا تھا کہ 30 مئی تک ایٹمی دھماکا کردیا جائے ورنہ ہم سڑکوں پر آجائیں گے۔ دھماکے کا کوئی متبادل نہیں، بیرونی امداد کی چھتری کے بجائے اللہ پر بھروسا کیا جائے اور اس کے بعد 28 مئی کو حکومت نے مجبوراً دھماکے کیے۔ قاضی حسین احمد کے دو اور احسانات ریکارڈ پر ہیں۔ ہر سال 5 فروری کو یوم کشمیر بھی جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا گیا تھا اور جنرل ضیا سمیت تمام حکمرانوں کو سی ٹی بی ٹی (ایٹمی تجربات پر مکمل پابندی کا معاہدہ) پر دستخط سے روکا تھا اور آج تک پاکستان نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کیے۔ اب تو اخبارات میں بھی ڈاکٹر عبدالقدیر کے کردار کو کم کرکے دوسرے سائنسدانوں کو کریڈٹ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج بھارت نے پاکستان کے منہ پر چڑھ کر کشمیریوں اور مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا ہے اب ایٹم بم بھی اس کی ہمت کو کم نہیں کر رہا۔ کیونکہ ہمارے حکمرانوں اور تمام طاقتور لوگوں نے بہت واضح طور پر خوف اور کمزوری کا اظہار کیا ہے اور واضح تاثر دیا ہے کہ بھارت سے جنگ نہیں لڑ سکتے۔ یہ وہی کیفیت ہے جب طالوت کے لشکر نے نہر پر آزمائش کے وقت چلو بھر پانی پینے کے بجائے پیٹ بھر کر پانی پیا اور صبح صاف کہہ دیا کہ آج ہم میں جالود سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ ہمارے حکمران بھی اس آزمائش میں ناکام ہو گئے۔ انہوں نے بھی آئی ایم ایف کے سودی نظام، انگریز کے قانون کی بالادستی مغربی آقائوں کے احکامات اور بیرونی امداد کی نہر سے خوب پیٹ بھر کر کھایا پیا ہے تو ان کا بھی یہی جواب ہوگا کہ آج ہم میں ہندو بنیے سے لڑنے کی طاقت نہیں، ان حکمرانوں نے خاکم بدہن یوم تکبیر کو یوم تحقیر بنا دیا ہے۔