طیارہ حادثہ، غیر جانبدار رپورٹ آسکے گی؟

601

کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کو ایک ہفتہ مکمل ہوچکا ہے مگر ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہوسکی ہے کہ 99 افراد کس کی غلطی کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ۔ حادثے کے فوری بعد ہی حکومت نے رسمی طور پر تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلان کردیا مگر تحقیقاتی کمیٹی خود ایک سوالیہ نشان ہے ۔ ہوابازی ڈویژن کے زیر انتظام ائر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ (اے آئی آئی بی ) اس حادثے کی تحقیقات کرے گا ۔ اے آئی آئی بی کے صدر ائر کموڈور عثمان غنی بربنائے عہدہ اس تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ہوں گے جبکہ ارکان میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹیکنیکل ونگ کمانڈر ملک محمد عمران ، گروپ کیپٹن توقیراور بورڈ کے جوائنٹ ڈائریکٹر ناصر مجید ہوں گے۔ یہ تحقیقاتی ٹیم ایک ایسے وقت میں تحقیقات کرے گی جب پی آئی اے کے سربراہ حال ہی میں پاک فضائیہ سے بطور وائس چیف آف ائر اسٹاف ریٹائر ہوئے ہیں اور یہ سارے کے سارے افسران ان کے ماتحت تھے ۔ اس کے علاوہ پی آئی اے میں ان افسران کے ساتھیوں کی جو اب بھی پاک فضائیہ کے حاضر سروس ملازم ہیں ، ایک فوج ظفر موج براجمان ہے ۔ کچھ یہی حال سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ہے کہ وہاں کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل وائس ائر مارشل ہیں تو ایک ائر کموڈور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیں ۔اگرکوئی دہشت گردی کا عنصر نہ ہو تو طیارہ حادثے کے ذمہ دار یہی دو ادارے ہیں ۔ اب حکومت یہ سمجھائے کہ کوئی ماتحت کس طرح سے اپنے افسر یا ساتھیوں کے خلاف کوئی درست تحقیقاتی رپورٹ پیش کرسکتا ہے ۔ چونکہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پی آئی اے ، دونوں ہی اداروں میں طاقتور افراد بیٹھے ہیں ، اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو اب تک نکلتا آیا ہے یعنی تحقیقاتی رپورٹ کو اتنی تاخیر کا شکار کردیا جائے کہ یہ عام افراد کے ذہنوں سے محو ہوجائے ۔ اس کے بعد ایک لایعنی سی رپورٹ خاموشی سے خانہ پری کے لیے جمع کروادی جائے گی اور اللہ اللہ خیر صلّا ۔ پاکستان میں اب تک جتنے بھی حادثات ہوئے ہیں ، ان سب کا یہی نتیجہ نکلا ہے ۔ ایک اور بھی کام سب مل کرکرتے ہیں ، اور وہ ہے پائلٹ پر سارا بوجھ ڈال دینا ۔ چونکہ پائلٹ بھی حادثے میں جاں بحق ہوچکا ہوتا ہے ، اس لیے وہ اپنا یا اپنی لابنگ نہیں کرسکتا ۔ یہ بالکل وہی صورتحال ہے جیسے ہر دھماکے کو خودکش قرار دے کر سب سکون کی نیند سوجاتے ہیں ۔ تقریبا سو افراد کی جانیں جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ، اس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور عوامی رائے کا احترام کرنا چاہیے کہ ایک غیر جانبدار تحقیقاتی بورڈ تشکیل دیا جائے جس میں ماہرین شامل ہوں ۔ وطن عزیز میں یہ عجیب صورتحال ہے کہ ہر مسئلے کا حل فوجی افسران کی تعیناتی سمجھ لیا گیا ہے ۔ یہ بات ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ فوجی افسران کی تربیت جس مقصد کے لیے کی جاتی ہے ، انہیں اُسی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو فائدہ ہوگا ۔