امریکا ،سیاہ فام کی ہلاکت پر نسل پرستانہ فسادات پھوٹ پڑے

802

منیاپولس (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی ریاست مینی سوٹا کے دارالحکومت میں سیاہ فام شخص کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔ خبررساں اداروں کے مطابق سوشل میڈیا پر واقعے کی وڈیو وائرل ہوئی،جس میں پولیس اہل کار نے 46 سالہ جارج لوئیڈ پر تشدد کرتے ہوئے اس کی گردن کو گھٹنے سے دبارکھا ہے۔ وڈیو وائرل ہونے کے بعد بڑی تعداد میں شہری سڑکوں پر امڈ آئے اور ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ، فلیش گرنیڈ اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔ جواب میںمشتعل شہریوں نے پولیس کی گاڑیوں پر نسل پرستانہ نعرے لکھے اور پولیس اسٹیشن کی عمارت پر پتھراؤ کیا ۔ مقامی میڈیا کے مطابق مقتول ایک ریستوران میں سیکورٹی گارڈ کے طور پر تعینات تھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکا میں سفید فاموں کی جا نب سے سیاہ فام شہریوں کے ساتھ نسل پرستانہ اور ہتک آمیز سلوک کے باعث پہلے ہی کشیدگی ہے ،جب کہ حالیہ واقعے نے اسے ہوا دے دی ہے۔ ریاستی حکام کی جانب سے وڈیو جاری ہونے کے بعد 4پولیس اہل کاروں کو نوکریوں سے برطرف کی دیا گیا ۔ منیاپولس شہر کے میئر کا کہنا تھا کہ سیاہ فام ہونے کا مطلب موت کی سزا نہیں ہوتی۔ ادھر تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے مداخلت کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کردیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے دوران گھر سے نکلنے میں خوف محسوس ہو رہا تھا لیکن اپنے سیاہ فام بھائی کی ہلاکت پر گھر میں رہنا ممکن نہیں تھا۔ادھر پولیس نے مظاہرین پر بھی بری طرح تشدد کیا۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ مظاہرین پر امن تھے،اس کے باوجود پولیس نے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی اور ربڑ گولیوں سے نشانہ بنایا۔ پولیس چیف میڈاریا ایراڈونڈو کا کہنا تھا کہ کسی مشتبہ شخص کو قابو میں رکھنے کے بارے میںپولیس کی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔ پولیس افسران کو پالیسی کے تحت مشتبہ شخص کی گردن پر گھٹنا ٹیکنے کی اس وقت تک اجازت ہے ، جب تک سانس لینے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔واضح رہے کہ 2014ء میں بھی پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کی ہلاکت کے بعد احتجاج شروع ہوا تھا ۔ بعدازاں اس سلسلے میں ’بلیک لائف میٹرز‘نامی تحریک نے جنم لیا تھا۔