سندھ پبلک سروس کمیشن : کرپشن میں ملوث افراد بھی ارکان بنادیے گئے

1774

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2013 سے سندھ میں اپنی من مانیاں کرنے کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کے 1973ء سے رائج اصول و ضوابط کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے جس کے تحت کمیشن میں اربن علاقے کی نمائندگی صرف ایک رکن تک محدود کر دی گئی۔ جو ماضی میں کم ازکم 3 ارکان پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔یہ بات نمائندہ ” جسارت ” کی تحقیقات سے سامنے آئی ہے تحقیقات کے دوران ایک سابق بیورو کریٹ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن صوبے کا ایک بہت اہم ادارہ ہوا کرتا تھا مگر اسے بھی 2013ء سے سیاسی بنیاد پر چلاکر اس کی ساکھ بری طرح متاثر کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کمیشن کے اراکین کی کل تعداد بھی 11 سے اب 7 کر دی گئی جبکہ اس میں اربن ممبر کی تعداد اب صرف ایک رہ گئی ہے۔ حکومت سندھ کے ذرائع اور سرکاری دستاویزات کے مطابق سندھ پبلک سروس کمیشن جس کی بنیادی ذمے داری کمیشن کے رائج امتحانات کے طریقہ کار کے مطابق میرٹ اور طے شدہ کوٹہ کے تحت نئی براہ راست تقرریاں کرنا ہے اب مبینہ طور پر من پسند افراد کی تقرریاں کرنے لگا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دنوں کمیشن کے چیئرمین نور محمد جدوانی ہے جبکہ چیئرمین اور چھ ارکان غلام شبیر شیخ ، آفتاب انور بلوچ ، عابد علی شاہ ، لعل محمد کھیڑو ، ہریش چندر ، محمد صدیق میمن (سابق چیف سیکرٹری) کا تعلق اندرون سندھ سے ہے جبکہ صرف ایک رکن سید عبدالعلیم جعفری کا تعلق اربن سندھ کراچی سے ہے۔ کمیشن کے رکن سید عابد علی شاہ ، وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ کے قریبی رشتے دار ہیں جبکہ صدیق میمن نیب کے مقدمے میں ملوث اور ضمانت پر ہیں۔ ان کے علاوہ مذکورہ 6 ارکان میں سے بھی مزید دو افسران مختلف مقدمات میں ملوث ہیں اور یہ پہلی بار دیکھنے میں آرہا ہے کہ کرپشن میں ملوث افراد کو بھی کمیشن کا ممبر بنایا گیا ہے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اور بعض بھرتیوں میں بے قاعدگی کا نوٹس بھی لے چکی ہے ۔