پیپلز پارٹی نے پریس کلب کے فنڈز روک کر جمہوریت کاچہرہ بے نقاب کر دیا

720

کراچی :  سندھ حکومت کا ایک اور کارنامہ سامنے آ گیا ، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے کراچی پریس کلب کی سالانہ گرانٹ روک لی جبکہ گزشتہ سال کی گرانٹ سے ایک کروڑ روپے بھی روک لیے گئے ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے باعث جہاں صحت کے شعبے کو متاثر ہوا ہے وہیں صحافی بھی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں، ایسے میں دنیا بھر کی حکومتیں پریس کلبوں اور صحافتی تنظیموں کے ذریعے صحافیوں کی امداد کر رہی ہے، انھیں ریلیف پیکیجز دیئے جا رہے ہیں۔

وہیں سندھ میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے کراچی پریس کلب کی ڈھائی کروڑ روپے کی گرانٹ روک دی ہے جو کہ سالانہ بجٹ میں پاس کی گئی ہے اس کے علاوہ سندھ حکومت نے گزشتہ سال بھی ایک کروڑ روپے کی گرانٹ روک دی تھی اس طرح دو سالوں سندھ حکومت نے پریس کلب کے ساڑھے تین کروڑ روپے روک رکھے ہیں جس کی وجہ سے کراچی پریس کلب کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے ۔

 اس حوالے سے موقف جاننے کے لیے صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ سے رابطہ کیا تو ان سے رابطہ نہ ہو سکا دوسری جانب حکومت سندھ کے اس عمل سے صحافی برادری میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی جمہوریت کے دعوے تو کرتی ہے لیکن میڈیا کے حوالے سے پالیسیوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پیپلز پارٹی آزادی صحافت پر کتنا یقین رکھتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی پریس کلب کی سالانہ گرانٹ روکنے سے متعلق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو بالکل لاعلم رکھا گیا ہے جبکہ سندھ کابینہ کے بیشتر وزراء بھی اس بات سے بے خبر ہیں۔

 ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کے دور سے سندھ حکومت میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے اس طرح کے حربوں کا استعمال شروع کیا گیا تھا جو بعد کے آنے والے وزرا سعید غنی اور ناصر حسین شاہ نے بھی وہی پالیسی جاری رہی ۔

 واضح رہے کہ ہر دور میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاکہ حکمرانوں کی کرپشن ، بدعنوانیوں اور نااہلیوں کو چھپایا جا سکے لیکن بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کے ادوار میں بھی ایسا ممکن نہ ہو سکا صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر سندھ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پریس کلب کی گرانٹ روک کر اور دیگر حوالوں سے صحافیوں کے جائز حقوق غصب کر کے میڈیا کو کنٹرول کر لے گی تو یہ اس کی بھول ہے آزادی اظہار رائے پر قدغن نہ پہلے قبول تھی اور نہ اب قبول ہے۔