مرگ مفاجات

1052

وزیر اعظم عمران خان ہوں یا ان کے حواری سب قوالوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ شاید یہ کہنا زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا کہ وہ قوالوں کی طرح ایک ہی مصرعے کی تکرار کرکے قوم کی سماعتوں کو مجروح کررہے ہیں۔ شاید ان کی پلاننگ یہ ہے کہ ان کی سماعتیں مجروح ہوجائیں گی اور ان سے لہو بہنے لگے گا تو عوام قوالی کے سوا کچھ اور سننے کے اہل نہیں رہیں گے۔ وزیر اعظم ہوں یا ان کے جی حضوریے سبھی یک زبان ہوکر چلا رہے ہیں کہ ہمیں کورونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا سو جتنی جلدی ممکن ہو اس حقیقت کو قبول کرلیا جائے کہ یہی قوم اور ملک کے حق میں بہتر ہوگا۔ مگر کوئی سیاسی مبصر کوئی ٹی وی اینکر اور کوئی مشورے باز انہیں یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کرتا کہ جنگ عظیم اول میں فلو نے اتنی تباہی مچائی تھی کہ فلو میں مبتلا ہونے والا ہر دسواں شخص جاںبحق ہوگیا تھا۔ مگر کسی ملک نے لاک ڈائون نہیں کیا کسی حکمران نے اپنے ملک کی عوام کو یہ رائے نہیں دی کہ فلو کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالو۔ سوال یہ ہے کہ فلو کے متعلق اتنا پروپیگنڈا کیوں نہیں کیا گیا تھا ہم آج بھی فلو کے ساتھ جی رہے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے کورونا کورونا کی رٹ لگا کر عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ بار بار یہ دھمکی بھی دی جارہی ہے کہ اگر گھروں سے باہر نکلے تو قبروں میں دفن ہوجائو گے یا جیل میں بند کردیا جائے گا۔ کوئی عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ لوگ گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے تو بازار کھولنے کی کیا ضرورت تھی اور لوگ خریداری کیسے کریں گے۔ اسی موضوع پر گفتگو ہورہی تھی کہ ایک بزرگ نے کہا کہ جنگ عظیم اول میں فلو کی وبا صرف یورپ وغیرہ میں پھیلی تھی ایشیائی ممالک اس سے محفوظ تھے مگر کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، امریکا جیسے ملک کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ کورونا وائرس تو جان چھوڑ جائے گا مگر اس کی وجہ سے معیشت کو جو بخار چڑھے گا اس کا علاج کیسے کیا جائے گا، سو انہوں نے کورونا ویکسین مارکیٹ میں لانے کا تہیا کر لیا ہے اور کمزور ممالک کی کمزوری اور بزدلی سے استفادہ کرنے کے لیے ویکسین خریدنے پر مجبور کیا جائے گا یوں ان کی معیشت تو توانا ہوجائے گی مگر معاشی طور پر کمزور ممالک اور مزید کمزور ہوجائیں گے۔ جنگ عظیم اول میں فلو کی وبا نے جو تباہی مچائی تھی اس سے مفر ممکن نہیں کہ مقدر اٹل ہوگئے ہیں۔ وہ جو علامہ اقبال نے کہا تھا ہے جرم ضعیفی کی سزا مر گ ومفاجات، شاید کورونا بھی ہمارے جرم ضعیفی کی سزا ہے اور یہ جو اموات ہورہی ہیں اسے مرگ مفادات ہی کہا جاسکتا ہے غور طلب امر یہ کہ ان اموات سے کس کے مفادات وابستہ ہیں۔
بِیڑا یا بَیڑا
وطن عزیز کے کسی بھی ادارے کی عیب جوئی ہمیں بری طرح کھٹتی ہے۔ کیونکہ وطن عزیز کی ہر چیز کو عزیز سمجھنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ مگر بعض ادارے شاہ سے بھی زیادہ شاہ کے وفادار بن جائیں تو دل کی دھڑکن آدھی رات کو پناہ طلب کرنے کے لیے دستک لگنے لگتی ہے۔ نیب شاید واحد ادارہ ہے جسے شکوک و شبہات کی گھٹی چٹائی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی دشمنی کا مظاہرہ کرنے کے لیے مخالف شخص پر FIRدرج کرا دے تو الزامات غلط ثابت ہونے پر مدعی کو قانون کی گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔ مگر نیب کے ترجمان جس کا جی چاہے گریبان پکڑ لیں جس کی چاہیں پگڑی اچھالیں مگر الزامات کے غلط ثابت ہونے پر کوئی جواب طلبی نہیں ہوتی۔ حالانکہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے ایسا کرنے سے ملک دشمنی کی کاشت پروان چڑھتی ہے ملک کی جگ ہنسائی ہوتی ہے اور سقوط ڈھاکا کا المیہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور جہاں تک تحریک انصاف کی حکومت کا تعلق ہے تو اس کی کارکردگی سے یہی لگتا ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کا مقصد ہی ملک کو رسوا کرنا ہے۔ ہمارے ملک میں ٹڈی دل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک ادارہ ہوا کرتا تھا مگر پھر اس ادارے کو بند کردیا گیا۔ شاید اس کا مقصد محکمہ زراعت میں کچھ لوگوں کوکھپانا تھا۔ اب کئی برسوں سے ٹڈی دل بے لگام ہماری فصلوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی محبت کے اظہار کے لیے تاج محل نہ بنا سکے تو موصوف نے اس کا حل یہ نکالا کہ اپنے لاڈلے کتے ٹائیگر کی محبت کو یاد گار بنانے کے لیے ٹائیگر فورس بنا دی۔ اگر وہ فورس بنانا ہی چاہتے تھے تو ٹڈی دل کا محکمہ بحال کرسکتے تھے۔ مگر ٹڈی دل کے محکمے کو ٹائیگر فورس کا نام نہیں دے سکتے تھے۔ بعض اوقات بچے بڑے پتے کی بات کہہ جاتے ہیں اب ایک الگ موضوع ہے کہ وہ خود نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کہا ہے کیوں کہا ہے اسی طرح وفاقی وزیر ریلوے بھی کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ ان کے منہ سے ازخود نوٹس کی طرح نکل جاتی ہے۔ آدمی نہ چاہنے کے باوجود ان پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ موصوف نے کورونا وائرس کی وبا سے متعلق جو بات کہی ہے لاجواب ہے فرماتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا عمران خان کے لیے اللہ کی رحمت ثابت ہوئی ہے مگر انہوں نے بین السطور جو کچھ کہا ہے جو کمال کی بات ہے تحریک انصاف کی حکومت آئی تو کچھ ماہ کے اندر ہی اندر معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا۔ شاید عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے قبل بیڑا اٹھایا تھا ہم جوں جوں ملک کی معیشت اور شیخ صاحب کی بات پر غور کرتے ہیں حضرت غالب کے شعر کی طرح اس کی پرتیں کھلتی جاتیں ہیں اور اب وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حواری ملک کی معیشت کی تباہی کا سارا ملبہ کورونا وائرس پہ ڈال کر اپنی کارکردگی کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہیں گے۔