چینی تحقیقاتی کیس کی بے معنی رپورٹ

500

چینی کے اسکینڈل پر شوگر تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے۔ یہ رپورٹ احتیاطاً ہفتہ کے دن پیش کی گئی جس کے بعد عید کی چھٹیاں شروع ہو گئیں۔ اس کا اہتمام دانستہ کیا گیا۔ اس مبہم، بے نتیجہ اور نا مکمل رپورٹ پر درباریوں نے بغلیں بجانی شروع کر دی ہیں کہ دیکھا ہماری حکومت نے کیسا کارنامہ انجام دیا جس کی جرأت سابقہ حکومتوں میں سے کسی میں نہیں ہوئی۔ وزیراعظم کی شان میں قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔ تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایف بی آر کے اعداد و شمار کا استعمال کیا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر مجرموں کی نشاندہی کی گئی اور نہ ہی کوئی فرد جرم عاید ہوئی۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں جائے گا اور وہ ہی فیصلہ کرے گی۔ لیکن عدالت میں دوسرے فریقوں کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ اور لمبی بحثیں ہوں گی، دلائل پیش کیے جائیں گے اور وکلا اپنا اپنا زور لگائیں گے۔ عدالتی نظام کی صورتحال کے مدنظر یہ سلسلہ کئی برس تک چلے گا۔ تب تک کوئی نیا اسکینڈل سامنے آجائے گا۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن بھی ایک فریق ہے اور کہا گیا ہے کہ شوگر ملوں کے مقدمات کھلیں گے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے فوری طور پر کمیشن رپورٹ مسترد کردی ہے۔ ایسوسی ایشن نے کمیشن پر حقائق مسخ کرنے کا الزام عاید کیا ہے اور کہا ہے کہ کمیشن نے بھی کمیٹی ہی کی طرح غلطیاں کی ہیں، تحقیقات کے دوران میں اس کی تجاویز نظر انداز کردی گئیں اور فرانزک آڈٹ پر مبنی رپورٹ بھی ان ہی افراد نے بنائی جو تحقیقاتی کمیشن میں بھی شامل تھے۔ چینی کی طلب اور رسد کو بھی رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ گنے اور کرشنگ کے فرق کو ڈبل بُکس یعنی دہرے کھاتے رکھنے کا الزام دیا گیا حالانکہ یہ معاملہ گڑ کی پیداوار سے متعلق ہے۔ کمیشن نے چینی کی پیداواری لاگت بھی کم ظاہر کی۔ چینی بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو چینی کے کاروبار اور اس کی اکائونٹنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن شاید اسی لیے کمیشن کے ارکان کا انتخاب کیا گیا۔ غلط بخشی اور نا اہل افراد کی بھرتی تو عام بات ہے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے خود پر سٹے اور بے نامی کے الزامات کو بھی مسترد کردیا ہے۔ اب ان الزامات کو ثابت کرنے ہی میں کئی برس لگ جائیں گے۔ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں شوگر ملوں کے گوداموں میں موجود اسٹاک، پیداواری لاگت اور فی ٹن گنے سے بننے والی چینی کی مقدار کو ناپنے کا کوئی حکومتی ڈھانچہ فعال نہیں ہے۔ جہاں تک الزامات کی نفی کا تعلق ہے تو ہر فریق یہی کر رہا ہے۔ بحران کا سب سے بڑا ذمے دار قرار دیے گئے جہانگیر ترین بھی بے گناہی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، ان کا کاروبار صاف ہے۔ ان کی بے گناہی کا اعلان تو خود وزیراعظم عمران خان کر چکے ہیں۔ جب پہلی رپورٹ پیش ہوئی تھی تو انہوں نے خود جہانگیر ترین کی صفائی پیش کی تھی۔ چنانچہ تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا۔ اب اطلاعات کے مطابق عمران خان اور جہانگیر ترین کے تعلقات میں دراڑ پڑ گئی ہے۔ جہانگیر ترین عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑے قیمتی ہیں۔ حکومت سازی اور دیگر ارکان کو گھیر کر پی ٹی آئی میں لانے میں ان کا کردار سب پر واضح ہے۔ اپنی خدمات کے پیش نظر ان کی ناراضی بجا ہے۔ چینی پر زرتلافی دینے کے بڑے ملزم وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہیں لیکن انہوں نے کمیشن میں پیش ہو کر صاف کہہ دیا کہ انہیں تو کچھ یاد ہی نہیں حالانکہ ان کا معاملہ بہت واضح ہے۔ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو بھی ضرور گھسیٹا جائے گا۔ ان پر نئے الزامات عاید ہو گئے ہیں اور عمران خان کے حواری شیخ رشید کئی دن سے دعوے کر رہے ہیں کہ شہباز شریف تو گئے، عید کے بعد نیب کی دو دھاری تلوار چلے گی۔ اپنے کچھ لوگوں کی قربانی دے کر حزب اختلاف کی قیادت کا صفایا کرنا بڑی کامیابی ہوگی۔ عید گزر چکی اب دیکھتے ہیں کس کس پر تلواریں چلیں گی۔ چینی کے اسکینڈل میں حزب اختلاف تو براہ راست وزیراعظم عمران خان کو ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ وہ کسی کی قربانی دے کر بچ نکلیں گے اور سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا چینی کی قیمت کم ہوئی؟ حکمران طبقے کا پسندیدہ جملہ ہے کہ جنہوں نے کھائیں گاجریں ان کے پیٹ میں مروڑ تو اٹھے گا۔ چینی اور گندم کے اسکینڈل میں اربوں روپے کھا جانے والوں کا ہاضمہ بہت مضبوط ہے، کچھ نہیں ہو رہا۔