کوویڈ 19 اور پاکستانی معیشت

651

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری
کورونا وائرس کی وبا جو چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی تھی، کی تباہ کاریوں اور بربادیوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک تقریباً52 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں جب کہ ساڑھے تین لاکھ افراد لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں۔ امریکا جہاں ہلاکتوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جو ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے وہ اس وبا کے پھیلنے کا الزام چین پر لگارہا ہے جہاں صرف پانچ ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں اور چین جوابی دفاعی بیانات دے رہا ہے۔ ایسے میں اس وبا سے بچنے کے لیے لاک ڈائون، سماجی فاصلے، دستانے، ماسک، ہینڈ سینی ٹائزر جیسے طریقے دنیا میں اختیار کیے جارہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف زندگی کی گاڑی کو بھی چلانا ہے کاروبار معیشت کو رواں رکھنا ہے۔ سماجی اور معاشی اور مالیاتی سرگرمیوں کو کوئی نہ کوئی مشکل دینی ہے۔ چناں چہ بے شمار کاموں نے آن لائن شکل اختیار کرلی ہے۔ آن لائن شاپنگ پہلے بھی تھی اب اس کا استعمال اور بڑھ گیا ہے۔ تعلیمی شعبے میں تدریسی عمل میں اور امتحانات کے انعقاد میں انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ کیا جارہا ہے اس کے علاوہ آن لائن میٹنگ اور ویڈیو کانفرنسنگ کا سلسلہ عام ہورہا ہے۔ سافٹ ویئر کے ماہرین نئے نئے سافٹ ویئر مارکیٹ میں لارہے ہیں۔ اسی طرح سیمینار جن میں متعدد مقررین کسی ایک موضوع پر اظہار خیال کرتے ہیں اور بعد میں شرکا سوال و جواب کرتے ہیں اس کا متبادل ویبی نار (webinar) کی شکل میں سامنے آگیا ہے۔ اسی طرح کا ایک ویبی نار، محمد علی جناح یونیورسٹی میں، کوویڈ 19 اور پاکستانی معیشت کے موضوع پر پچھلے ہفتے منعقد کیا گیا جس میں کراچی یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کی محترمہ ڈاکٹر نورین مجاہد صاحبہ اور ایف پی سی سی آئی کے شعبہ تحقیق و ترقی کے ڈاکٹر محمد بلال نے شرکت کی۔ یونیورسٹی کی جانب سے ناچیز نے نمائندگی کی جب کہ نظامت کے فرائض مشہور ٹی وی اینکر علی ناصر نے انجام دیے۔
ڈاکٹر نورین کا کہنا تھا کہ مسلسل لاک ڈائون اور معاشی سرگرمیاں بند ہوجانے کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو سخت نقصان ہوا ہے اور اسے دنیا کی دیگر معیشتوں کی طرح کساد بازاری (recessim) کا سامنا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ نجی شعبے میں اجرتوں میں کمی کی جائے گی اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوگا لیکن ساتھ ہی ساتھ ٹیکنالوجی اور ای کامرس کو فروغ ہوگا اور اس سے متعلقہ شعبوں میں ملازمتوں میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح عالمی معیشت سست روی کے باعث تیل کی مصنوعات کا استعمال کم ہوگیا ہے جس سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی ہورہی ہے اس سے آنے والے دنوں میں مجموعی طور پر مہنگائی میں کمی ہوگی۔ جدید معاشی نظریات میں بزنس سائیکل تھیوری کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس وقت اگر پاکستان میں سرمایہ کاری، مجموعی طلب اور اشیائے صرف کے استعمال میں کمی ہوئی ہے تو یقینا ایک وقت کے بعد معاشی سرگرمیوں میں اُبھار اور نمو ہوئی اور معیشت کے تمام شعبے جن میں زراعت، صنعت، تجارت، تعمیرات اور سرمایہ کاری شامل ہیں وہ تمام بہتری اور بڑھنے کی طرف گامزن ہوں گے۔
ڈاکٹر محمد بلال جن کا تعلق فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے ہے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جب بھی کوئی آفت، سیلاب، زلزلہ آئے تو سرکاری ادارے اس صورت حال کا مقابلہ نہیں کرپاتے، چاہے 2005 کا زلزلہ ہو یا سیلاب یا پھر کورونا کی وبا۔ یوں تو ہمارے ہاں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) موجود ہے لیکن اس کا رول کہیں نظر نہیں آرہا۔ لاک ڈائون کے باعث صرف کراچی بند ہونے سے 20سے 22 ارب روپے کے ریونیو کا نقصان ہوتا ہے، مجموعی طور پر اب تک پاکستانی معیشت کو 2 سے 205 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جسے پاکستان جیسے ملک کو برداشت کرنا مشکل ہے۔ اس وقت ملک کے نوجوانوں کی تعداد تقریباً 12 کروڑ ہے اور جس میں سے صرف 3 فی صد یونیورسٹی کی تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں، اس وقت پاکستان کو ڈگری کی بنیاد پر تعلیم کی جگہ ہنر کی بنیاد پر فنی تعلیم کی ضرورت ہے دنیا بھر میں بڑے بڑے کاروبار کے مالکان اعلیٰ ڈگری یافتہ نہیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بلال نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ پاکستانی حکومت نے تعمیراتی شعبے کو مراعات دی ہیں لیکن اس کے ثمرات صرف بلڈرز مافیا تک محدود نہیں رہنے چاہئیں بلکہ نیچے تک پہنچنے چاہئیں، دوسرے یہ کہ معاشی بہتری کے لیے تعمیراتی شعبے کے ساتھ آٹو موبائل سیکٹرز کو بھی فعال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اس سے منسلک چھوٹی صنعتوں اور غیر ہنر مند لوگوں تک مثبت اثرات پہنچیں گے۔
عام آدمی کے مسائل سے متعلقہ سوال کا جواب دیتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں دنیا بھر میں لوکل گورنمنٹ کا ادارہ فعال کردار ادا کرتا ہے پاکستان میں صوبائی حکومتیں لوکل گورنمنٹ کو آگے نہیں آنے دیتیں، پاکستان میں صوبوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے اور لوکل گورنمنٹ کو بااختیار ہونا چاہیے۔