افغانستان میں امریکی شر انگیزی

570

امریکا افغانستان میں 20 برس پٹنے کے بعد بھی شر انگیزی سے باز نہیں آرہا اور ایک ٹانگ افغانستان سے باہر نکالنے کے باوجود اپنا اثر و رسوخ رکھنا چاہتا ہے۔ امریکی عہدیدار برائے جنوبی وسطی ایشیا ایلس ویلز نے افغانستان میں بھارت کے کردار کو اہم قرار دے دیا ہے اور طالبان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ داعش سے لڑیں۔ طالبان کو یہ معلوم ہے کہ کس سے لڑنا ہے اور کس سے نہیں لیکن امریکی کون ہوتے ہیں کہ طالبان کو ہدایات دیں کہ کس سے لڑو۔ اصل مشورہ تو امریکا کو دیا جانا چاہیے تھا کہ داعش جیسی تنظیموں کی سرپرستی بند کرے۔ امریکا کی جانب سے عراق اور شام میں داعش کی سرپرستی اور اس کے لیے تمام سہولیات کی فراہمی کے ثبوت دُنیا کے سامنے آچکے ہیں۔ اب امریکا کو افغانستان سے نکلنا ہے تو وہاں مستقل شر انگیزی کی بنیاد چھوڑ کر جا رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کے کردار کو اہم قرار دینے کا معاملہ طالبان سے زیادہ پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے۔ کیونکہ افغانستان میں کسی کی بھی حکومت ہو پاکستان اس کے ساتھ معاملات طے کر سکتا ہے لیکن بھارت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا مقصد پاکستان پر دبائو بڑھانا ہے اسی لیے پاکستانی دفتر خارجہ نے اس پر یہی ردعمل دیا ہے کہ افغانستان میں امن عمل کے مخالفوں کا کردار کم ہونا چاہیے۔ یعنی یہ امریکی نمائندے کو واضح جواب دیا گیا ہے کہ افغان امن عمل کے دشمنوں میں افغانستان میں کون کون ہے۔ ویسے امریکا کون ہوتا ہے بھارت کے کردار کو اہم قرار دینے والا۔ میدان کی جو حقیقت ہے وہ امریکا بھی خوب جانتا ہے اور افغانستان کی حکومت بھی۔ طالبان سے حملے کم کرنے کا مطالبہ تو کیا جا رہا ہے لیکن افغان امن معاہدے پر عملدرآمد کی بات نہیں کی جارہی۔ اس معاہدے کی اہم شق طالبان قیدیوں کی رہائی تھی۔ اس میں شروع سے گڑ بڑ کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے بروقت نوٹس لیا ہے اور امریکی نمائندے کو جواب بھی دے دیا ہے۔ پاکستانی قیادت اگر چینی اسکینڈل، حکومتی اتحاد کی ٹوٹ پھوٹ اور اپوزیشن کے خلاف بیان بازی اور صوبہ سندھ سے لڑائی سے فرصت پائے تو اسے کشمیر، افغانستان اور امت مسلمہ کے دیگر مسائل پر توجہ دینے کا وقت بھی مل جائے گا۔