سب مکر سب فریب سب جھوٹ

824

عمران خان کی تیسری شادی کے وقت نکاح خواں نے پوچھا ’’لڑکا کیا کرتا ہے‘‘۔ جواب آیا ’’نواز شریف کو تنگ‘‘۔ خان صاحب کا آج بھی یہی حال ہے وہ ہر اس شخص کے درپے ہو جاتے ہیں جو ان کی وزارت عظمیٰ کے درپے ہو۔ ان کے پچاس وفاقی وزرا، اسٹیٹ منسٹر، مشیران، خصوصی معاونین، تینوں صوبے کے وزرائے اعلیٰ، ان کے صوبائی وزرا، منسٹرز، مشیران اور خصوصی معاونین کی فوج ملک میں کہیں بھی، کچھ بھی برباد کررہی ہو، نا کارکردگی کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہو وہ ’’واللہ اعلم با لصواب‘‘ (اللہ ہی بہتر جا نتا ہے) کی تسبیح گھماتے رہتے ہیں۔ کوئی شکایت کرے کہیں سے دبائو پڑے وہ ایک مرتبہ اور واللہ اعلم بالصواب کی تسبیح پڑھ لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک طرف لیکن انہیں ذرا بھی شک ہوجائے کہ کوئی ان کے نیچے سے کرسی گھسیٹنے کی کوشش کررہا ہے، وزیراعظم بننے کا سوچ رہا ہے، وہ جب تک اس کی ایسی کی تیسی نہیں کردیتے، اس کے فکرو عمل کا کان نہیں نکال لیتے، اسے نہیں چھوڑتے۔ اس باب میں وہ مرزا مظہر جان جاناںکے مقلد ہیں۔ محمد حسین آزاد ان کے بارے میں لکھتے ہیں ’’دلی دروازے کے پاس ایک دن ہوادار میں سوار چلے جاتے تھے۔ راہ میں ایک بنیے کی چارپائی کے کان پر نظر پڑی وہیں ٹھیر گئے اور جب تک اس کا کان نہ نکلوالیا، آگے نہ بڑھے‘‘۔ وزارت عظمیٰ کے حریصوں کا حریسہ بنانے میں خان صاحب ایک لمحے کی کوتا ہی نہیں کرتے۔ ڈانٹ ڈپٹ سے لے کر کان کھینچنے اور تُن کر رکھنے تک وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
خان صاحب کی قوت فیصلہ کی کمی، بحرانوں سے نمٹنے میں نا کامی، منتقم مزاجی اور پالیسیوں میں ابہام دیکھ کر معمولی عقل وفہم کا آدمی بھی پکار اٹھتا ہے ملک ایسے نہیں چلا کرتے۔ ان خامیوں کو دیکھ کر وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کے منہ میں پا نی ہی نہیں آتا باقاعدہ رال بہنے لگتی ہے اور پھر جب اس قسم کی افواہیں گردش کرنے لگتی ہیںکہ ان سے نجات کی کھچڑی پک رہی ہے تو بہرے بھی بغیر ہیئرنگ ایڈ کے اقتدار کے قدموں کی چاپیں سننے لگتے ہیں۔ اب اس کے لیے کسی قسم کی افلاطونیت درکار نہیں کہ خان صاحب اور ان کے وزیر مشیر بھی اس صورتحال سے با خبر ہوتے ہیں لہٰذا وہ بھی خم ٹھونک کر میدان میں اتر آتے ہیں۔ خان صاحب جانتے ہیں کہ ان کا اقتدار کا تنبو کن بانسوں پر کھڑا ہے لہٰذا اسٹیبلشمنٹ سے وفا کے عہد کو بھول جائیں ایسے حالات وہ کسی طور پیدا نہیں ہونے دیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت تک حکومت تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک اسٹیبلشمنٹ کی مرضی نہ ہو۔ لہٰذا وہ اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں سے کاندھا ہی نہیں، پورے جسم وجاں سے آغوش کی حالت میں رہتے ہیں۔ آغوش کی اس گرمی کی قیمت ادا کرنے میں بھی وہ کسی پس وپیش سے کام نہیں لیتے۔
یہ روشنی یوں ہی آغوش میں نہیں آتی
چراغ بن کے منڈیروں پہ جلنا پڑتا ہے
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے تیور وزیراعظم ہائوس میں جھاڑو پھیرنے سے کم نظر نہیں آتے تھے۔ یہ ایک چو نکا دینے والا قدم تھا۔ اب اس بات سے انکار کرنے کے لیے مولانا کے کسی عقیدت مند کی عقل وفہم ہی درکار ہوگی کہ مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کے بغیر ایسی اعلیٰ مہم جوئی کی جرأت کی ہو۔ مولانا کی یونی فارم میں ملبوس ڈنڈا بردار فورس، پلان Aپلان B مولانا کے دعوے۔ اس سب کے جواب میں خان صاحب نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے گلے میں تر میم کی صورت، پیار کی وہ جھپی ڈالی کہ دودھ کی نہر کے لیے کسی پہاڑ کی ضرورت نہیں رہی۔ عدالت عظمیٰ نے بھی چھ مہینے کی مہلت دے کر اپنے فرائض منصبی میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خان صاحب کی اس گگلی کے جواب میں مولانا کا کاروان فیض صاحب کے اس شعر کی تصویر بن گیا۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے
نواز شریف کے پلٹلٹس کی لندن رخصتی کے موقع پر بھی ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل کے ابھاروں کے بڑھ جانے کی خبریں گردش میں تھیں۔ اس موقع پر بھی عمران خان نے شاندار چوکے چھکے لگائے۔ نواز شریف کو روکنا تو ان کے بس میں نہیں تھا لیکن مریم نواز کو پاکستان میں روک کر، پارٹی کے اہم رہنمائوں کو گرفتار کرکے، شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنا کر ڈیل کے راستے میں اسپیڈ بریکر لگا دیے۔ آج کل جب کہ انہیں پھر شہباز شریف سے خطرہ محسوس ہورہا ہے انہوں نے شہباز شریف کے خلاف مقدمات دوبارہ کھول دیے ہیں۔ شہباز شریف پسپا نظر آرہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے بعد عمران خان پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر عثمان بزدار کی تعیناتی کو اپنے اقتدار کی مضبوطی تصور کرتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی وہ کسی کی سننے کے لیے تیار نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بہتر گورننس چاہتی ہے۔ اس معاملے میں بھی وہ عثمان بزدار کو نہ جانے کون سے بیوٹی پارلر سے تیار کراکے اسٹیبلشمنٹ کے سا منے پیش کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ’’ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے‘‘ کی تصویر بن جاتی ہے۔ علیم خان نے اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ سے رابطے استوار کیے تو انہوں نے علیم خان کو جیل میں ڈال دیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ان کی درخواست ضمانت منظور کی۔ علیم خان لگ بھگ ایک برس بعد بزدار کی کابینہ میں بحیثیت سینئر وزیر مقرر ہوئے۔ اس سے پہلے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ سرکاری افسران ہٹاکر بزدار کی حامی ٹیم صوبے میں تعینات کرچکے تھے۔ چودھری برادران کا اسمبلی کے اندر اور باہر ن لیگ سے آنکھ کا نشہ چلتا رہتا ہے۔ پچھلے دنوں انہوں نے خواجہ سعد رفیق سے بھی ملاقات کی۔ وہ بھی وزیراعلیٰ بزدار کی رخصتی چاہتے ہیں۔ خان صاحب نے ایک بیس برس پرانا کیس نکال کر ان کے پر باندھنے کا بندو بست کرڈالا۔
ہر شعبے میں عمران خان کی کارکردگی کو ہدف تنقید بنایا جاسکتا ہے سوائے وزارت عظمیٰ کی حفاظت کے۔ جمہوریت میں حکمران کا زیادہ وقت اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے جوڑ توڑ اور چالیں چلنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت اچھی حکومتیں دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔