انسانی تاریخ میں خوابوں کا کِردار: شاہنواز فاروقی

1428

انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خواب سے بڑی انقلابی قوت کا تصور محال ہے۔ خواب مثالیہ ہے، خواب Ideal ہے، خواب امید ہے، خواب میں وہی قوت اور تاثیر ہے جو بارش میں ہوتی ہے۔ بارش سے پہلے تھر لق و دق صحرا کا منظر پیش کررہا ہوتا ہے، لیکن بارش ہوتے ہی صحرائے تھر میں ہر طرف سبزہ اگ آتا ہے، یہاں تک کہ تھر کو پہچاننا دشوار ہوجاتا ہے۔ خواب کی بارش بھی زندگی کے صحرا کو سبزہ زار میں ڈھال دیتی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو مذہب انسان کا سب سے بڑا خواب ہے۔ جدید لوگ فلسفے کو بڑی چیز سمجھتے ہیں، مگر فلسفہ صرف یہ بتاتا ہے کہ زندگی کیا ہے۔ مذہب نہ صرف یہ بتاتا ہے کہ زندگی کیا ہے، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ زندگی کو کیسا ہونا چاہیے۔ یہی خواب اس کی قوت اور اس کا جمال ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خواب دیکھنے والوں سے زیادہ اہم کوئی نہیں۔

بیسویں صدی کے برصغیر نے تین بڑے خواب دیکھنے والے یا تین بڑے Idealist پیدا کیے: اقبالؒ، مولانا مودودیؒ اور قائداعظمؒ۔ اقبال کی پوری شاعری خوابوں سے بھری پڑی ہے:۔

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

……٭٭٭……

کرمکِ ناداں طوافِ شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو

……٭٭٭……

دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا، گیا دورِ گراں خوابی
عروقِ مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطقِ اعرابی

……٭٭٭……

سرشکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتابِ ملّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

……٭٭٭……

ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تُو، زباں تُو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تُو ہے
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تُو ہے

……٭٭٭……

تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

اقبال کے آخری شعر کے تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا مودودیؒ اپنے زمانے کے امامِ برحق تھے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے حاضر و موجود سے پوری امت ِمسلمہ اور پوری انسانیت کو بیزار کرنے کا فرض ادا کیا۔ مولانا کے زمانے کا ایک حاضر و موجود سوشلزم تھا۔ مولانا کے زمانے کا دوسرا حاضر و موجود مغربی تہذیب تھی۔ مولانا نے سوشلزم کے بارے میں صاف کہاکہ ایک وقت آئے گا کہ سوشلزم کو خود ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ مولانا نے جدید مغربی تہذیب کو خوفناک ناموں سے یاد کیا۔ انہوں نے کہاکہ جدید مغربی تہذیب ’’باطل‘‘ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ جدید مغربی تہذیب ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ ہے۔ انہوں نے صدا بلند کی کہ مغربی تہذیب ’’شجرِخبیث‘‘ ہے۔ مولانا نے کروڑوں مسلمانوں کو سوشلزم اور جدید مغربی تہذیب کے انہدام کا خواب بھی دکھایا اور مسلمانوں کو اسلام کے امکانات کے خواب سے منسلک بھی کیا۔ مولانا کے زمانے کے مسلمانوں نے اسلام کو ترک تو نہیں کیا تھا مگر وہ اسلام کی جامعیت پر اصرار کرنے والے بھی نہیں رہ گئے تھے۔ مولانا نے مسلمانوں کو یہ بھولی ہوئی بات یاد دلائی کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام صرف ہمارا ماضی نہیں ہے، وہ ہمارا حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔ مولانا نے ہزار طریقوں سے مسلمانوں کے قلوب و اذہان میں یہ بات راسخ کی کہ صرف اسلام کے ذریعے ہی مسلمان اپنی عظمتِ رفتہ کو پاسکتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے صاف کہا کہ قرآن کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ مولانا جب تک زندہ رہے کروڑوں انسانوں کے قلوب و اذہان میں خوابوں کی فصل کاشت کرتے رہے۔

محمد علی جناح جب تک کانگریس میں تھے وہ صرف ایک وکیل اور دوسرے درجے کے رہنما تھے۔ مگر ایک اسلامی ریاست کے خواب نے انہیں محمد علی جناح سے قائداعظم بنادیا۔ انہیں دوسرے درجے کے رہنما سے تاریخ ساز شخصیت میں ڈھال دیا۔ پاکستان کے خواب سے پہلے وہ وقت کے ہاتھوں میں ایک کھلونا تھے، مگر خواب کی قوت نے انہیں وقت پر غالب آنے کی صلاحیت عطا کردی۔ پاکستان نہ کہیں ’’موجود‘‘ تھا اور نہ کسی طرح ’’ممکن‘‘ تھا، اس لیے کہ مسلمانوں کا مقابلہ وقت کی ایک سپر پاور اور ایک عظیم اکثریت سے تھا۔ مگر اسلامی ریاست کے خواب نے قائداعظم کو سلطنتِ برطانیہ اور ہندو اکثریت سے بیک وقت لڑنے اور انہیں شکست سے دوچار کرنے کی استعداد مہیا کردی۔ پاکستان کے خواب سے پہلے جناح صرف افراد کے وکیل تھے۔ خواب نے انہیں وقت کی عدالت میں اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کا وکیل بناکر کھڑا کردیا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی بھیڑ ’’قوم‘‘ بن گئی، کمزور ’’قوی‘‘ ہوگئے، مایوسی ’’امید‘‘ میں ڈھل گئی اور پاکستان عہدِ حاضر کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ اقبال نے کہا تھا:۔

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم کے ہاتھوں میں یہ تینوں شمشیریں موجود تھیں۔ چنانچہ پاکستان جو 1940ء میں بھی ’’ناممکن‘‘ نظر آتا تھا، وہ 1947ء میں ’’ممکن‘‘ بن کر ’’موجود‘‘ ہوگیا۔

انسانوں کی عظیم اکثریت حاضر و موجود کی اسیر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حاضر و موجود کی کشش ثقل یا Gravitational Force غیر معمولی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ حاضر و موجود ہمارے مفادات سے عبارت ہوتا ہے، ہمارے تعصبات سے عبارت ہوتا ہے، ہمارے ذہنی تحفظات سے عبارت ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کی کشش ثقل سے آزاد ہونا آسان نہیں ہوتا۔ جس طرح راکٹ زمین کی کشش ثقل کو توڑ دیتا ہے، ٹھیک اسی طرح خواب حاضر و موجود کی کشش ثقل کو ناکارہ بناکر انسان کو اس سے بلند کردیتا ہے۔

خواب انسان کو خودشناس بناتا ہے اور اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔ انسان جب تک حاضر و موجود کا اسیر رہتا ہے اُس وقت تک صرف معلوم صلاحیتیں ہی اس کے کام آتی ہیں، مگر خواب انسان پر اس کی نامعلوم صلاحیتوں کا انکشاف کرتا ہے۔ خواب معلوم کی سرحد کو نامعلوم کی سرحد سے ملا دیتا ہے۔ حاضر و موجود میں کہیں صرف انسان کا ذہن بروئے کار آتا ہے، کہیں صرف اس کے جذبات بروئے کار آتے ہیں، کہیں صرف اس کے احساسات کام میں آتے ہیں… مگر خواب انسان کے پورے وجود کو بیک وقت متحرک کردیتا ہے۔ اس طرح انسان معمولی سے غیر معمولی بن جاتا ہے۔ اقبال جب تک وطن پرست شاعر تھے وہ حاضر و موجود کی گرفت میں تھے، اور زیادہ سے زیادہ اچھے شاعر کہلا سکتے تھے۔ مگر اسلام کے احیاء کے خواب نے انہیں بیسویں صدی کا شاعرِ اعظم بناکر کھڑا کردیا۔ مولانا مودودیؒ کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے احیاء اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے خواب نے انہیں مولانا مودودی بنایا۔

کہنے کو خواہش، آرزو اور تمنا ایک دوسرے کے متبادل الفاظ ہیں، مگر ان کی معنویت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خواہش انسانی وجود کے صرف ایک معمولی گوشے یا حصے کی علامت ہے، آرزو انسانی وجود کے بڑے حصے کا استعارہ ہے، جبکہ تمنا انسانی وجود کی کلیّت کو ظاہر کرتی ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت ’’خواہش‘‘ کے زیراثر زندگی بسر کرتی ہے۔ بہت کم لوگ خواہش سے بلند ہوکر آرزو تک پہنچ پاتے ہیں، اور تمنا چند لوگوں کا مقدر بن پاتی ہے۔ خواب کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کے روحانی، نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی ارتقا کو ممکن بناکر اسے آرزو اور تمنا سے ہم کنار کرتا ہے۔ میرؔ کا شعر ہے:۔

تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

ٹوائن بی نے کہیں لکھا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ کچھ لوگ چیلنج کو سر کا بوجھ بنالیتے ہیں اور اس کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ چیلنج کو قوتِ محرکہ یا Motivational Force میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ خواب کی تاریخ بتاتی ہے کہ خواب ہی دراصل چیلنج کو قوتِ محرکہ میں ڈھالتا ہے۔ اگر انسان کے سامنے صرف ’’موجود‘‘ ہو اور ’’ممکن‘‘ کا خاکہ نہ ہو تو چیلنج بھی انسان کے کسی کام نہیں آتا۔ مگر جب انسان کے سامنے ’’ممکن‘‘ ہوتا ہے تو چیلنج اسے زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔

جیسا کہ عرض کیا جاچکا، خواب ایک مثالیہ ہے، ایک Ideal ہے۔ مثالیہ کمتر سے بہتر اور بہتر سے بہترین کی جانب سفر کی علامت ہے۔ بہترین زندگی کو درجۂ کمال تک پہنچاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خواب کے بغیر انسان کبھی کمال سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ کہا جاچکا خواب ایک امید ہے۔ ایک سطح پر امید خود سے وابستگی اور اس پر انحصار کی علامت ہے۔ دوسری سطح پر امید خود انسان کی ذات سے توقع کا استعارہ ہے۔ انسان کو اپنے آپ سے بھی امید ہو اور اپنے رب سے بھی امید ہو تو اس سے زیادہ مالدار کون ہوگا! اس طرح خواب انسان کو امیر ترین ہستی میں تبدیل کردیتا ہے۔

خواب یا مثالیت پرستی نے اسی لیے پوری انسانی تاریخ پر اثر ڈالا ہے۔ افلاطون انسانی تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔ مغربی مفکر وائٹ ہیڈ نے اس کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورا مغربی فلسفہ افلاطون کی فکر پر ایک حاشیے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ افلاطون کی ایک مبالغہ آمیز تعریف ہے۔ مگر اس تعریف کے بغیر افلاطون کی عظمت کو بیان کرنا دشوار ہے۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ افلاطون بھی ایک خواب دیکھنے والا تھا۔ ایک مثالیت پسند یا ایک Idealist تھا۔ یوں تو افلاطون کے پورے فلسفے پر ہی خواب کا گہرا اثر ہے، مگر اس کی تصنیف جمہوریہ تو ہے ہی ایک مثالی ریاست کا خاکہ۔ ہندوستان کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین نے 1966ء میں افلاطون کی “Republic” کا ترجمہ ’’ریاست‘‘ کے عنوان سے کیا تو اس کے پیش لفظ میں افلاطون کی مثالیت پسندی کو نمایاں کرتے ہوئے لکھا:۔

’’یہ جوشیلا من چلا امیرزادہ اپنے عہد کی ساری علمی متاع سے بہرہ اندوز، فلسفے اور ادب میں ماہر، وقت کے سیاسی ہنگاموں سے متاثر ہوا… اور کیوں نہ ہوتا، اس کا لڑکپن ہی تھا کہ اہلِ اثینہ نے سسلی کی مہم شروع کی، اور شباب شروع ہوتے ہوتے شہر کی قوت کا تقریباً خاتمہ ہی ہوگیا۔ ایک طرف خارجی جنگیں اپنا اثر دکھا رہی تھیں، دوسری طرف داخلی مفاسد سر اٹھا رہے تھے۔ افلاطون شریف متمول خاندان کا نوجوان تھا۔ ادھر عوام نے حکومت پر قبضہ کررکھا تھا۔ جمہوریت کا دور دورہ تھا۔ اشراف امراء محض بے بس تھے۔ یہ نوجوان دیکھتا تھا کہ جماعتی زندگی کا سب سے دشوار اور سب سے اہم کام ’’حکومت‘‘ کرنے کے لیے ہرکس و ناکس، ہر چھوٹا بڑا، ہر اچھا برا آمادہ بلکہ کوشاں ہے۔ افلاطون سمجھتا تھا کہ یہ جمہوری ریاست ایک بے ملاح کی نائو ہے، کہاں دیکھیے تھمے۔ پھر صرف جمہوریت کا طوفانِ بے تمیزی ہی اس شریف زادے کے لیے سوہانِ روح نہ تھا بلکہ یہ نیک دل، منصف مزاج نوجوان جمہوریت کی مادی ترقیوں سے بھی اثر لے رہا تھا۔ یہ دیکھتا تھا کہ عام زندگی میں سکون اور سادگی کی جگہ مسابقت اور تعیش نے لے لی ہے۔ یہ تجارت کے انتظامات دیکھتا اور کاروبار کا فروغ، تجارتی بیڑے اور اچھے اچھے بندرگاہ… مگر انہی تجارتی منڈیوں کی ریل پیل میں ننگے بھوکوں کی بپتا پر بھی اس کی نظر پڑتی۔ تمول کے ساتھ افلاس اور محلوں کے قریب جھونپڑیاں بھی دکھائی دیتیں، اور جمہوریت کی سیاسی کمزوریاں ہی نہیں، سرمایہ داری کی اجتماعی مضرتیں بھی اس کا دل دُکھاتیں اور اسے سوچنے پر مجبور کرتیں‘‘۔ (ریاست۔ صفحہ 6)۔

افلاطون کی اسی مثالیت پسندی نے اسے Pepublic کی صورت میں ایک مثالی ریاست کا خاکہ پیش کرنے پر مائل کیا۔ کارل مارکس کی سوشلسٹ اور کمیونسٹ ریاست بھی اپنی اصل میں ایک خواب تھا، لیکن کمیونسٹوں نے خود اپنے خواب کی مٹی پلید کر ڈالی، چنانچہ کمیونسٹ ریاست کا تجربہ صرف ’’75 سال‘‘ میں ناکام ہوگیا۔ مثالیت پسندی صرف فکرو فلسفے اور ریاست و سیاست تک محدود نہیں، بلکہ اس نے شعر و ادب کے دائرے میں بھی اپنے امکانات کو ظاہر کیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی مثال دی جاچکی، لیکن اس ضمن میں دوستو وسکی کے ناول ایڈیٹ کا ذکر ناگزیر ہے۔ ایڈیٹ دراصل دوستووسکی کے ’’مثالی انسان‘‘ اور اس کے تجربے کا بیان ہے۔ دوستووسکی کا مثالی انسان پرنس میشکن ایک نیک سیرت انسان ہے۔ اس کے دل میں کسی کے لیے برائی نہیں۔ وہ کسی کا برا چاہ ہی نہیں سکتا۔ اس میں رحم دلی اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ دوستو وسکی نے پرنس میشکن کے کردار کو ایک نفسیاتی اسپتال سے اٹھایا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ فی زمانہ اچھا انسان نارمل معاشرے سے آہی نہیں سکتا۔ بہرحال دوستو وسکی اپنے مثالی انسان کو معاشرے میں لے تو آیا مگر وہ معاشرے کی بدصورتی برداشت نہ کرسکا اور دوبارہ نفسیاتی اسپتال پہنچ گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دوستو وسکی کے نزدیک اوّل تو مثالی آدمی عام معاشرے میں جنم نہیں لے سکتا، اور اگر وہ کہیں سے معاشرے میں در بھی آئے تو اپنی نفسیاتی صحت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ مطلب یہ کہ دنیا اتنی پست ہوگئی ہے کہ اس میں صرف گھٹیا لوگ ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایڈیٹ میں دوستو وسکی کے مثالی انسان کا خواب بکھر کر رہ گیا۔

یہ حقیقت راز نہیں کہ دنیا کی تمام اعلیٰ عشقیہ شاعری خواب کا بیان ہے۔ میر تقی میرؔ یاد آگئے:۔

محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

……٭٭٭……

محبت مسبب محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب

……٭٭٭……

دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا

……٭٭٭……

چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

……٭٭٭……

مرگِ مجنوں پہ عقل گم ہے میرؔ
کیا دوانے نے موت پائی ہے

……٭٭٭……

خوش ہیں دیوانگیِ میرؔ سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ

مگر اب ہم بدقسمتی سے ’’اندھے کباڑی‘‘ کے عہد میں زندہ ہیں۔ ’’اندھا کباڑی‘‘ دراصل ن۔م راشدکی نظم ہے۔ اس سے پہلے کہ گفتگو آگے بڑھے، راشد کی نظم ’’اندھا کباڑی‘‘ ملاحظہ فرما لیجیے:۔

شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے
پا شکستہ، سر بریدہ خواب،
جن سے سارے شہر والے بے خبر
ڈھونڈتا ہوں شہر کے گوشوں میں روزو شب،
کہ ان کو جمع کرلوں،
دل کی بھٹی میں تپائوں
جس سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
جیسے نو آراستہ دلہن کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمت ِ راہ ملے
خواب لے لو خواب
صبح ہوتے چوک میں جاکر لگاتا ہوں صدا
خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو
خواب گر میں بھی نہیں
صورت گر ِ ثانی ہوں بس
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!
شام ہوجاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا
مفت لے لو مفت یہ سونے کے خواب
مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ
دیکھنا یہ مفت کہتا ہے کوئی دھوکہ نہ ہو
ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب
بھک سے اڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب
جی نہیں کس کام کے؟
ایسے کباڑی کے یہ خواب
ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب
رات ہوجاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں
رات بھر بڑ بڑاتا ہوں
یہ لے لو خواب
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو خواب
میرے خواب
خواب… میرے خواب
خواب
ان کے دام بھی…

راشد کی یہ نظم ہمارے عہد کے ایک بہت ہی بڑے المیے کا بیان ہے۔ فرد ہو یا گروہ، جماعت ہو یا قوم… اب کسی کی آنکھ میں کوئی خواب نہیں۔ ساری دنیا مغرب کے ’’حاضر و موجود‘‘ پر ایمان لائے ہوئے ہے۔ مغرب کی جمہوریت، مغرب کی سرمایہ داری، مغرب کی سائنس، مغرب کی ٹیکنالوجی، مغرب کا تصورِ زندگی، مغرب کا تصورِ انسان، مغرب کی سماجیات، مغرب کا معاشی نظام، مغرب کا تعلیمی نظام، مغرب کا علم، مغرب کی فلم، مغرب کی ہوا، مغرب کی غذا، مغرب کے خواب… کسی کی آنکھ میں مغرب کے حاضر و موجود کو مسترد کرنے، اسے پھلانگنے اور ایک نئی دنیا خلق کرنے کا خواب نہیں ہے۔ ہماری تہذیب میں خوابوں سے متعلق جتنی ’’دکانیں‘‘ تھیں ان پر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے:۔

اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

بدقسمتی سے لوگ افراد اور قوموں کی غربت کو ان کی آمدنی کی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن غریب ترین آدمی، غریب ترین گروہ، غریب ترین جماعت اور غریب ترین قوم وہ نہیں جس کی آمدنی کم ہے۔ غریب ترین آدمی، غریب ترین گروہ، غریب ترین جماعت اور غریب ترین قوم وہ ہے جس کی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں۔ جو کسی Ideal سے وابستہ نہیں۔ جو اپنے مثالیے کے مطابق دنیا کو بدلنے کی تمنا کیا، خواہش بھی نہیں رکھتی۔ ہمیں یونیورسٹی کے زمانے کا اپنا ایک شعر یاد آگیا:۔

سنا یہی ہے کہ میرا بھی ایک مصرف ہے
میں خواب دیکھتا ہوں اور سوال کرتا ہوں