ساٹھ روز مذاق کے بعد!!!

768

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ صوبے وفاق کی ہدایت پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے کورونا وائرس کیس از خود نوٹس کا تحریری حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی شق 149 کے تحت ناگزیر حالات میں وفاقی حکومت صوبوں کو ہدایات جاری کرسکتی ہے اور صوبے پابند ہیں کہ وفاق کے احکامات پر عملدرآمد کریں۔ عدالت نے شق 149 کی مزید وضاحت کی ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنے انتظامی اختیارات استعمال کر سکتی ہیں لیکن اس سے وفاق کے احکامات سے متضاد کوئی اقدام نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے کوئی نئی بات نہیں بتائی بس آئین کی شق 149 کی وضاحت کی ہے اور اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وفاق میں پارلیمان کے تین سو سے زیادہ اراکین اور صوبوں کے ایک ہزار کے لگ بھگ اراکین کو آئین کی اس شق کا علم نہیں تھا۔ وفاق اور صوبوں نے عوام کے ساتھ 60 روز تک مذاق کیا ہے۔ اس شق کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں اس کا علم نہیں تھا یہ چیف جسٹس صاحب نے خود گھڑی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ آرمی پبلک اسکول سانحے کے بعد وفاقی حکومت اور صوبوں کے تمام معاملات نیشنل سیکورٹی کے زمرے میں آگئے تھے اور تمام احکامات اس معاملے میں مرکز سے چل رہے تھے۔ پاکستان میں تو بار بار ایسا ہوا ہے۔ خود عمران خان کی حکومت کے بہت سے معاملات ایسے ہی چل رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد معاملہ واضح نہیں ہوا بلکہ نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ وفاق کے ارکان اسمبلی وفاقی کابینہ اور صوبائی حکومتوں کو آئین کی شق 149 کے بارے میں یقیناً معلوم تھا تو 60 روز سے قوم کے ساتھ مذاق کیوں کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت پندرہ دن تک رٹ لگاتی رہی کہ لاک ڈائون نہیں ہونا چاہیے اور صوبے ایک ایک کرکے لاک ڈائون کرتے چلے گئے۔ وفاق لاک ڈائون میں ایک ماہ بعد نرمی کے اعلانات کرتا رہا اور صوبے لاک ڈائون کی مدت بڑھاتے رہے۔ سندھ میں خصوصی طور پر جمعہ کے دن زیادہ دیوانگی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اب بھی ٹرین سروس ہو یا بازار کھولنے کا معاملہ، تعمیرات کا شعبہ ہو یا دیگر امور، وفاق کی کسی ہدایت پر صوبہ سندھ نے عمل نہیں کیا۔ اگر عدالت کو ازخود نوٹس لے کر صرف آئین کی شق دکھانی تھی تو اس کے لیے اتنے دن لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ پہلے دن ہی بتا دیا جاتا کہ آئین کی شق 149 کے مطابق وفاق فیصلے کرے۔ لیکن اس میں ایک قباحت تھی کہ عدالت کے ریمارکس اخبارات کی زینت نہ بنتے، ٹی وی چینلز پر ان ریمارکس پر بحث نہیں ہوتی۔ اس لیے عدالت کو بھی اتنا وقت لینا پڑا۔ عوام کا کیا ہے وہ پہلے بھی ایسے ڈرامے بھگت رہے تھے اب پھر بھگتیں گے۔ عدالت کو اب ایک اور ازخود نوٹس لینا چاہیے کہ صوبے اور وفاق بتائیں کہ انہیں شق 149 کا علم تھا یا نہیں۔ این ڈی ایم اے بنانے والوں نے اس بارے میں کیوں غور نہیں کیا۔ اگر عدالت میں پیش ہو کر کوئی یہ کہہ دے کہ اسے تو شق 149 کے بارے میں علم نہیں تھا تو اس کی اسمبلی یا سینیٹ کی رکنیت ختم کر دینی چاہیے۔ عدالت عظمیٰ اب وفاق کے خلاف کارروائی کا حکم دے کہ وہ شق 149 کو کیوں بروئے کار نہیں لائی۔ جبکہ اس میں واضح ہے کہ وفاق صوبوں کو ناگزیر حالات میں ہدایات دے سکتا ہے اور صوبے ان پر عملدرآمد کے پابند ہوں گے بلکہ اس سے متصادم اقدامات بھی نہیں کر سکیں گے۔ ان 60 دنوں میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہو گئے، لاکھوں بھوک اور بیماریوں کا شکار ہو گئے۔ ملک کا معاشی نظام تباہ ہو گیا۔ تعلیمی نظام کا بیڑا غرق ہو گیا۔ تجارت ختم ہو گئی، عام دکاندار اور تاجر بھی بے یارو مددگار ہو کر رہ گیا۔ وفاق نے محض زبانی جمع خرچ کیا، غریبوں کا خیال کرنے کے نعرے لگائے لیکن غریبوں کے لیے کھل کر احکامات جاری نہیں کیے۔ صرف ٹی وی ٹاک شوز میں الزامات کا کھیل جاری رہا۔ اس ساری تباہی کی ذمے داری وفاق اور صوبائی حکومتوں دونوں پر آتی ہے۔