بِنا موسم کی بارشیں اور کورونا

565

مئی گرمی کا مہینہ ہے جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے
لو آیا مئی کا مہینہ!!
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
اس مہینے میں ہوا بند ہو، سورج آگ برسا رہا ہو اور بجلی چلی جائے جو اکثر چلی جاتی ہے تو آدمی پسینے میں نہا جاتا ہے اب گھروں میں دستی پنکھا رکھنے کا رواج بھی نہیں ہے ورنہ گرمی میں یہ پنکھے بہت کام آتے تھے اور بجلی کا احسان مند نہیں ہونا پڑتا تھا۔ جدید سائنس نے آدمی کو سہولتیں تو بہت دی ہیں لیکن اس کی قوتِ مدافعت چھین لی ہے اب وہ نہ ذرا سی گرمی برداشت کرپاتا ہے، نہ سردی، بارشیں معمول سے زیادہ ہوں تو بھی آدمی گھبرا جاتا ہے، کچھ ایسی ہی صورت حال مئی کے مہینے میں بھی پیش آئی۔ اس مہینے میں معمول کی گرمی پڑنے کے بجائے بے موسم کی بارشوں نے ڈیرا ڈال لیا۔ ہر دوسرے تیسرے دن بادل گھِر کر آتے اور بن برسے نہیں جاتے تھے۔ سندھ کی تو ہمیں خبر نہیں، پورے پنجاب میں یہی حال تھا۔ حتیٰ کہ ملتان جو گرد و گرما کے لیے مشہور ہے وہاں بھی بادل بلاتکلف برس رہے تھے جس سے گرد بھی بیٹھ گئی تھی اور گرمی کا زور بھی ٹوٹ گیا تھا۔ ہم نیم پہاڑی علاقے میں رہتے ہیں یہاں بارشوں کے ساتھ ژالہ باری اور تیز ٹھنڈی ہوائوں نے بھی ہمارا گھر دیکھ لیا تھا۔ چناں چہ ہم مئی کے مہینے میں سویٹر پہننے اور رات میں کمبل اوڑھنے پر مجبور تھے۔ اس موسم میں روزے تو ٹھنڈے گزر گئے نہ بھوک نے ستایا نہ پیاس نے تڑپایا اور نہ ہی وقت نے اُلجھایا۔ روزہ اگرچہ کم و بیش پندرہ گھنٹے کا تھا لیکن یہ پندرہ گھنٹے لکھنے پڑھنے، سونے جاگنے اور عبادات میں آرام سے گزرتے رہے۔ روزہ داروں کے لیے یہ اللہ کا خاص انعام تھا۔ البتہ یہ بے موسم کی بارشیں کسانوں کے لیے بڑی آزمائش بن گئیں۔ کہتے ہیں کہ فصلیں کٹنے کے انتظار میں تیار کھڑی ہوں اور آسمان سے سونے کی بارش بھی ہوجائے تو یہ کسان کو وارا نہیں کھاتی، وہ تو اپنی محنت کا پھل کھانا چاہتا ہے اور محنت سے حاصل کیا گیا گندم کا ایک ایک دانہ اس کے لیے سونے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے لیکن اب کی دفعہ بے موسم کی بارشوں نے اس کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ بارانی علاقوں میں گندم کی فصل ذرا تاخیر سے پکتی ہے، ٹھنڈے پہاڑی علاقوں میں تو گندم کی کٹائی جون میں ہوتی ہے بہرکیف بے موسمی بارشیں شروع ہوئیں تو پنجاب کے میدانی نہری علاقوں میں زیادہ تر فصلیں کٹ چکی تھیں اور تھریشر کے انتظار میں کھیتوں میں گٹھوں کی صورت میں پڑی تھیں تو بارش نے انہیں بری طرح نقصان پہنچایا، کئی دن دھوپ لگانے کے بعد جب اسے تھریسر میں ڈالا گیا تو اس کا دانہ سکڑ کر کالا ہوگیا تھا اور پیداوار آدھی رہ گئی تھی۔ اسی طرح بارانی علاقوں میں جو فصلیں کھیتوں میں کھڑی تھیں انہیں بارش کے ساتھ ژالہ باری نے نقصان پہنچایا اور کہا جارہا ہے کہ چھوٹے کسانوں کو بے موسمی بارشوں کے سبب زبردست خسارے کا سامنا ہے لیکن حکومت کا دعویٰ ہے کہ اب کی دفعہ گندم کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ نجانے اس نے یہ اعداد و شمار کہاں سے لیے ہیں حالاں کہ اب کی دفعہ گندم چار پانچ فی صد کم رقبے پر کاشت ہوئی تھی اوپر سے بارشوں نے اس کا دھڑن تختہ کردیا۔
آئیے اب کچھ باتیں کورونا کی ہوجائیں، ہمیں اب یہ کہہ کر ڈرایا جارہا ہے کہ کورونا جلدی نہیں جانے کا، ہمیں اس کے ساتھ طویل عرصہ گزارنا پڑے گا، چناں چہ لاک ڈائون کے خاتمے میں رفاقت کے اصول کے تحت کورونا کو بھی اس کا حصہ دیا گیا ہے یعنی پیر منگل بدھ اور جمعرات چار دن عوام کورونا کے عمل دخل سے بے نیاز اپنے کام کاج میں آزاد ہوں گے جب کہ جمعہ ہفتہ اور اتوار تین دن کورونا کی عملداری ہوگی۔ وہ بازاروں اور آبادیوں میں اس طرح دندنائے گا جس طرح شاعر نے ’’مرزا یار‘‘ کے بارے میں خواہش کی تھی کہ شہر کی گلیاں ویران ہوجائیں اور مرزا ان میں بلاخوف و خطر گھومتا رہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان تین دنوں میں کورونا کی آئو بھگت کریں اور عوام کو اس میں دخل اندازی کی اجازت نہ ہوگی۔ وفاقی حکومت نے چار دن کے لیے ٹرانسپورٹ کھولنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ اگرچہ سندھ حکومت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ اسے کسی نے سمجھایا ہے کہ ہر اس بات سے اتفاق نہ کرو جس سے عوام کو فائدہ پہنچے۔ چناں چہ ٹرانسپورٹ کھلنے سے تین صوبوں کے عوام عید کے روز ایک دوسرے سے مل سکیں گے۔ البتہ سندھ کے عوام گھروں میں بند بیٹھے رہیں گے، پورا سندھ بھی کیوں اس پابندی کا صرف کراچی اور حیدر آباد پر اطلاق ہوگا۔ باقی سندھ اس سے استثنیٰ رہے گا وہ پہلے بھی ہر قسم کی پابندی سے آزاد چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ سرکار کراچی میں رہتی ہے اس لیے اس کا سارا زور کراچی پر ہے۔ کراچی کے لوگ اندرون سندھ نہیں جاسکتے نہ اندرون سندھ کے کراچی آسکتے ہیں، البتہ اندرون سندھ مقامی ٹرانسپورٹ دستیاب ہے اور لوگ باآسانی نقل و حرکت کرسکتے ہیں۔ دوسرے صوبوں کا بھی یہی معاملہ ہے وہاں بھی پابندیاں صرف شہروں تک محدود تھیں اور صوبوں کے اندرونی علاقے ان پابندیوں سے آزاد تھے۔ سچ پوچھیے تو ٹرانسپورٹ کی بندش سے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کردیا تھا۔ اب ٹرانسپورٹ کھلی ہے تو لوگ اس میں ہجوم در ہجوم سفر کررہے ہیں۔ کہاں کا کورونا اور کیسی حفاظتی تدابیر! پبلک ٹرانسپورٹ میں یہ ممکن بھی نہیں ہے البتہ پی آئی اے نے اندرون ملک پروازوں میں اس کا اہتمام کیا ہے اور تین نشستی رو میں درمیان کی نشست خالی رکھی ہے لیکن کرایہ بڑھا دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں خالی نشست کا کرایہ بھی مسافر ادا کریں گے، ٹرین سروس ابھی شروع نہیں ہوئی لیکن سنا ہے کہ آن لائن ہزاروں ٹکٹیں فروخت ہوچکی ہیں۔ ٹرینیں چلنا شروع ہوجائیں تو ان میں وہ ہجوم ہوگا کہ کورونا بری طرح کچلا جائے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ کاروبار زندگی کو تادیر معطل نہیں رکھا جاسکتا ہمیں کورونا کے ساتھ ہی زندہ رہنے کا حوصلہ کرنا ہوگا اور یہی حوصلہ ہمیں آزمائش میں ثابت قدم رکھ سکتا ہے۔