غریبوں کی موجیں ہو گئیں

776

بابا الف کے قلم سے
صورت حال اتنی غیر سنجیدہ ہے کہ سنجیدہ بات ممکن نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور عدالت عظمیٰ سب نے مل کر قوم کو کورونا کے آگے ڈال دیا ہے۔ معاملے کو ایسا پیچیدہ اور ڈرامائی بنادیا گیا ہے کہ اپنی رائے کا دیانت سے اظہار مشکل ہوگیا ہے۔ اللہ رحم کرے۔ جب امیدیں تمام ہوجاتی ہیں، سب دروازے بند ہو جاتے وہی ایک در ہے جو پیہم کھلا رہتا ہے۔ فی الحال تو سب زہر دے رہے ہیں اور زندگی کی بات کررہے ہیں۔
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں
آپ کو حیرت ہوگی یہ شعر معروف مزاح گو شاعر انور مسعود کا ہے۔ انور مسعود کے شعری سفر کا آغاز سنجیدہ شاعری سے ہوا تھا لیکن چونکہ ان کا مزاج عام سنجیدگی سے ہٹ کر گہری سنجیدگی کی جانب مائل تھا اس لیے وہ مزاح کی طرف نکل آئے کیونکہ گہری سنجیدگی مزاح ہی میں ممکن ہے۔ بات چل نکلی ہے تو انور مسعود کا ایک شعر اور سن لیجیے
دھرتی سے لوگ بھاگ کے جائیں تو کس طرف
ہر سمت آسماں ہے زمیں سے ملا ہوا
مسئلہ یہی ہے کہ دھرتی سے بھاگ کر جائیں کہاں۔ انسان دھرتی کو اپنے طور سنوارنے میں لگا ہے۔ 2018 کے الیکشن پر ایک اندازے کے مطابق 440ارب روپے خرچ آئے تھے۔ عمران خان سلیکٹ ہوئے، کابینہ بنی، صوبائی اور قومی اسمبلیاں تشکیل دی گئیں لیکن نتیجہ؟ جو لوگ کابینہ میں شامل ہیں، ان کا کیا حال ہے۔ فیصلہ سازی میں ان کا کتنا دخل ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میںتحریک انصاف کے فیڈرل منسٹر چودھری غلام سرور نے کہا ہے فیصلہ سازی میں وفاقی کابینہ کے اراکین کا کوئی کردار نہیں۔ فیصلے غیر منتخب مشیروں اور معاونین کے ذریعے کیے جا رہے ہیں۔ میں چالیس برس سے سیاست میں ہوں میری اپنی کابینہ میں ایسے لوگ ہیں جنہیں میں نہیں جانتا۔ جن کے متعلق پتا نہیں، کوئی نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، ان کے نزول کی وجوہات کیا ہیں۔ یہ لوگ کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کے فیصلوںکے نتیجے میں جو بھی حشر ہو، ان پر کوئی ذمے داری نہیں۔ ان کے پاس دوہری شہریت ہے۔ عہدہ ختم ہوگا یہ لوگ بیگ اٹھائیں گے اور بیرون ملک چلے جائیں گے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ، زلفی بخاری، ڈاکٹر طفر مرزا، ڈاکٹر ثانیہ نشتر، ایک طویل فہرست ہے۔ ان لوگوں کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے، انہیں کس نے لگوایا ہے، کسی کو کچھ خبر نہیں۔
جہاں تک اسمبلیوں کا تعلق ہے وہ پہلے ہی دن سے محض تقریریں کرنے کا فورم ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اسمبلی میں آنا بھی پسند نہیںکرتے۔ کیونکہ اس صورت میں انہیں اپوزیشن کے کمیوں کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔ لہٰذا قانون سازی عنقا ہے۔ حکومت صدارتی آرڈی ننسوں کے ذریعے چلائی جارہی ہے۔ جن کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ یہ چار مہینے تک نافذ رہتے ہیں۔ اس دوران اسمبلی سے ان آرڈی ننسوں کی منظوری لینا لازمی ہوتی ہے ورنہ اس کے بعد یہ غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 89 نے صدر کو اتنی بڑی صوابدید ہنگامی صورتحال کے تناظر میں دی ہے جس کا مقصد واضح طور پر عوامی مفاد ہو۔ صدر مملکت نے اس ہفتے زبردست ’’عوامی مفاد‘‘ میں ایک آرڈی ننس جاری کیا ہے۔ جس کے ذریعے کمپنیز ایکٹ 2017 میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے تبدیلی کی ہے۔ اس کے بعد آف شور کمپنیاں رکھنے والے ’’غریب عوام‘‘ کو اپنی چوری کی دولت چھپانے میں مدد ملے گی۔
آف شور کمپنی سے کیا مراد ہے۔ آف شور کمپنی سے مراد ہے خالی ڈبہ۔ فرض کیجیے آپ نے ایک مہنگا موبائل خریدا۔ سیل پیک، لیکن ڈبہ کھولا تو اندر کچھ بھی نہیں۔ موبائل تو کجا ایک پلاسٹک کا ٹکڑا بھی نہیں۔ آف شور کمپنیاں بھی ایسی ہی جعلی ہوتی ہیں۔ بظاہر صحیح، زبردست لیکن اندر سے خالی۔ ان کمپنیوں کا مالک اصلی ہوتا ہے، نہ دفتر اور نہ ملازم۔ یہ کمپنیاں صرف کاغذات پر چلائی جاتی ہیں اور اصل مالک کی شناخت چھپاتی ہیں۔ یہ کمپنیاں ایسے ممالک میں قائم کی جاتی ہیں جہاں برائے نام پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ مثلاً سوئٹزر لینڈ، برٹش ورجن آئی لینڈ، مکائو اور پاناما وغیرہ۔ زیادہ تر آف شور کمپنیاں غیر قانونی دولت چھپانے، ٹیکس ادائیگی سے بچنے، رشوت، فراڈ، دہشت گردی اور منشیات کی دولت چھپانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا سرمایہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتا ہے اور کاروباری سرگرمیوں کو بھی چھپایا جاسکتا ہے۔ انٹر نیٹ پر آف شور کمپنی صرف 10منٹ میں ایک کریڈٹ کارڈ اور 2ہزار ڈالر یعنی تقریباً3لاکھ روپے سے کچھ زائد میں کھولی جا سکتی ہیں۔
اب آئیے اصل کہانی کی طرف۔ 2017 میں نواز شریف حکومت نے قانون بنایا تھا کہ جن کے آف شور کمپنیز میں اثاثے ہوں گے کمپنیز ایکٹ 2017 کے تحت لوگ ان اثاثوں کو ظاہر کرنے کے پابند ہوں گے۔ تحریک انصاف حکومت نے چند دن پہلے صدارتی فرمان کے ذریعے اس قانون میں یوں تبدیلی کی ہے کہ اگر آف شور کمپنیوں میں شیئرز دس فی صد سے کم ہیں تو ڈیکلیر کرنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستانی شہری ہوں یا دوہری شہریت والے۔ آپ بہت مالدار ہیں ایک آف شور کمپنی کے مالک۔ شیئر ہو لڈرز میں آپ نے اپنا، بیوی کا، بیٹوں کا، بیٹیوں کا والدین کا اور جس کا چاہا نام شامل کردیا۔ پہلے دستاویزات میں یہ سب نام اور حصے آپ کو ظاہر کرنا پڑتے تھے۔ ڈائریکٹرز، بینی فشری، شیئر ہولڈرز سب کو ڈیکلیر کرنا پڑتا تھا۔ اب تحریک انصاف کی عوام دوست حکومت کی نئی ترمیم کے بعد اگر آف شور کمپنی میں شیئرز دس فی صد سے کم ہیں تو ڈیکلیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آف شور کمپنی میں ایک سو روپے لگائے
ہیں تو کسی کے 9روپے ظاہر کردیں کسی کو 9.9, 9.8, 9.7, 9.6۔ اسی طرح تقسیم کرتے جائیں اور سو روپے پورا کر دیں۔ گیارہ، بارہ شیئر ہولڈرز لے لیں، کسی کا حصہ بھی دس فی صد یا اس سے زائد نہ ہو۔ پھر ڈیکلیر کرنے کی ضرورت نہیں پیپر پارٹیشن کیجیے اور موجیں ہی موجیں۔
ایک اور غریب پرور ترمیم نیب کے حوالے سے کی گئی ہے۔ فرض کیجیے ایک بہت غریب آدمی کسی پبلک لمیٹڈ کمپنی کا ڈائریکٹر ہے یا بیورو کریٹ یعنی اعلیٰ سرکاری ملازم ہے، یا وزیر مشیر اور رکن اسمبلی ہے۔ نیب اسے پکڑلیتی ہے کہ اے غریب آدمی تیرے اکائونٹس اور تجوریوں میںذرائع آمدنی سے زیادہ پیسہ ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ وہ بیچارہ نیب کے ساتھ لین دین، پلی بارگین کر لیتا تھا کہ میں آپ کو اتنی رقم واپس کردیتا ہوں۔ اگر معاملہ انکوائری سے تفتیش کے مرحلے میں ہے پلی بارگین منظور ہوجاتی تب بھی اس کو قانونی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، سرکاری ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا ایک خاص مدت تک الیکشن لڑنے اور بینکوں سے قرض لینے کے لیے نااہل ہوجاتا تھا۔ یہ ان بے چارے غریبوں پر بہت بڑا ظلم تھا۔ نئے قانون میں کہا گیا ہے اگر نیب سے پلی بارگین یعنی لین دین کے بعد معاملہ طے ہوگیا ہے تو آپ نااہل نہیں ہوں گے۔ جائیں اور جاکر دوبارہ عہدے پر ’’ایمانداری‘‘ سے کام کریں، الیکشن لڑیں، بینکوں سے قرض لیں حکومت آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام بجائے خود کرپشن کو فروغ دیتا ہے کیونکہ اس میں قانون سازی حکومتی اراکین کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو اپنے مفاد کے تحت قانون سازی کرتے ہیں جب کہ اسلام کے نظام میں قانون سازاللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہے۔ عمران خان بہت شور کرتے تھے کہ آف شور کمپنیاں چوری چھپانے کا راستہ ہیں۔ انہوں نے عوام کو سہولتیں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ چوروں کو سہولتیں دے رہے ہیں شاید وہ چوروں ہی کو عوام سمجھتے ہیں۔ کیا کہا جائے
اب کوئی اس میں کیا دلیل کرے
جس کو چا ہے خدا ذلیل کرے