کیا کشمیر کا سودا کر لیا گیا؟

1494

بھارت نے بدھ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں متنازع ڈومیسائل کا متنازع قانون نافذ کردیا ہے جس کے بعد سے اب مقبوضہ ریاست کی سرکاری ملازمتوںمیں بھارتیوں کو ملازمت دی جاسکے گی ۔ پاکستان 27 رمضان المبارک کو وجود میں آیا تھا ، اس طرح سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کا یہ اقدام اسی روز کیا جس روز پاکستان وجود میں آیا تھا ۔ یوں تو مقبوضہ ریاست میں بھارت کی چیرہ دستیاں 1948 سے ہی جاری ہیں مگر 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ وادی کی حیثیت ہی تبدیل کردی ۔ اس کے بعد سے مسلسل بھارتی پیشقدمی جاری ہے اور اس کے جواب میں پاکستان کا ایک ہی رویہ ہے اور وہ ہے اب کی مار تو بتاؤں ۔ یہ بات بھی نہیں ہے کہ بھارت جو کچھ بھی کررہا ہے وہ اچانک کررہا ہے بلکہ اس کا بہت پہلے سے اعلان ہوتا ہے مگر پاکستان کی طرف سے اس طرح کے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ یہ لگتا ہی نہیں ہے کہ بھارت یہ سارے معاملات پاکستان کی شہ رگ کے ساتھ کررہا ہے یا پاکستان ایک مقتدر ریاست ہے ۔ سرحدی تنازعات پر چین بھارت کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے ، اسے ایک لمحے کے لیے فراموش کردیں کہ چین ایک بڑی طاقت ہے مگر نیپال جیسی ریاست نے جو ایک طرح سے بھارت پر انحصار کرتا ہے ، اس نے بھی اپنی ایک انچ زمین پر بھی بھارتی قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ نیپال نے ایک مقتدر ریاست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے نیا نقشہ جاری کیا ہے جس کے ذریعے اس نے بھارت پر واضح کردیا ہے کہ وہ اپنی حدود میں رہے ۔ کچھ ایسے ہی معاملات بنگلادیش کے ساتھ ہیں کہ وہ بھی اپنی ایک انچ زمین بھارتی قبضے کو برداشت کرنے پر راضی نہیں ہے ۔ بس ایک پاکستان ہے جس نے پورے مقبوضہ جموں ، کشمیر و لداخ پر بھارتی قبضے کو برداشت کرلیا ہے ۔ بھارت جب بھی کوئی پیش قدمی کرتا ہے ، پاکستان کی طرف سے ایک لکھا ہوا بیان الماری سے جھاڑ پونچھ کر نکالا جاتا ہے کہ بھارتی اقدام کو پاکستان نے مسترد کردیا ہے اور بس ۔ بزور قوت تو بھارت کو روکنا اب خواب و خیال ہی ہوگیا ہے کہ جن لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے ، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ آپ کو علم نہیں کہ جنگ بہت بری چیز ہے ، یہ قوموں کو تباہ کردیتی ہے ۔ اب تو اقوام متحدہ جیسے بے ضرر ادارے میں بھی پاکستان ایک اور قرارداد تک پیش کرنے کا روادار نہیں ہے ۔ دوست ممالک کو اس ضمن میں فعال کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، سارک اور او آئی سی جیسے بیکار اداروں تک میں اس سلسلے میں پاکستان نشستند ، گفتند اور برخاستند تک کے لیے تیار نہیں ہے ۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ عمران خان نیازی اور اس کے سلیکٹروں نے مقبوضہ کشمیر کا خاموشی سے سودا کردیا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو قوم کو بتایا جائے کہ ان کی شہ رگ کو کس قیمت پر فروخت کیا گیا ہے اور یہ قیمت کس کس نے اور کتنی وصول کی ہے ۔ برصغیر کی تاریخ میں میر صادق اور میر جعفر کے کردار تو پہلے سے ہی موجود ہیں ، سقوط بنگال میں جنرل نیازی کا کردار بھی موجود ہے ، اب کیا اس قبیلے میںنئے کرداروں کا اضافہ ہوگیا ہے ۔ عمران خان اور ان کے سلیکٹرز جو بھی گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہوں ، حیرت تو حزب اختلاف کی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں پر ہوتی ہے جو منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں ۔ کیا حزب اختلاف کے رہنما بھی اس کھیل میں برابرکے حصہ دار ہیں اور انہوں نے اپنا حصہ وصول کرلیا ہے ۔جہاں تک کشمیریوں کا تعلق ہے انہوں نے تو پہلے دن ہی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا اور اپنے اس فیصلے پر وہ ابھی تک قائم ہیں ۔ اس فیصلے کے لیے وہ روزقربانی بھی پیش کرتے ہیں اور بھارتی فوج کو ناکوں چنے بھی چبوادیے ہیں ۔ کچھ دن قبل ہی ریاض نائیکو نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا ، اب منگل کو جنید صحرائی نے جام شہادت نوش کیا ہے ۔ اگر پاکستان نے کشمیریوں کے خون کا سودا کردیا ہے ، اپنی شہ رگ سے دستبردار ہوگیا ہے اور اس نے بھارت کی آبی جارحیت سمیت ہر جارحیت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں تو بہتر ہوگا کہ اہل کشمیر کو بھی اس سے آگاہ کردیا جائے تاکہ وہ اپنا راستہ نئے حقائق کی روشنی میں منتخب کریں اور بھارتی استبداد سے نجات کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کریں ۔ 5 اگست سے مقبوضہ وادی مسلسل لاک ڈاؤن کا شکار ہے ۔ کورونا کے نام پر ایک نرم سا لاک ڈاؤن سہنے والے بھارتی لاک ڈاؤن کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ بھارتی لاک ڈاؤن کا درد صرف اور صرف فلسطینی ہی محسوس کرسکتے ہیں جو اسی طرح کے مظالم کا شکار ہیں جو بھارتی فوج نے کشمیریوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے ۔ پاکستان کے مجازی اور حقیقی حکمرانوں کا تو ذکر ہی کیا ، یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ پاکستانی قوم بھارتی ٹک ٹاک اور بھارتی گانوں کا بائیکاٹ کرنے پر بھی تیار نہیں ہے ۔ کیا پاکستان سے غیرت و حمیت بالکل ہی ختم ہوگئی ہے یا پھر پاکستان کے بارے میں امریکی اٹارنی نے درست تجزیہ کیا تھا کہ یہ لوگ چند ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بھی فروخت کرسکتے ہیں ۔