تاریخی معمات جو شائد کبھی نہ حل ہوں

1394
١) امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قاتل کون ؟؟؟
امریکا کے 35ویں صدر جان ایف کینیڈی کا قتل شاید امریکی تاریخ کا سب سے بڑا معمہ ہے جس کو حل کرنے کیلئے کئی وضاحتیں دی گئیں لیکن عوام مطمئن نہیں ہوپائی۔ 22 نومبر ، 1963 کو امریکی ریاست ٹیکسان کے علاقے ڈائون ٹائون میں صدر جان ایف کینیڈی کو سر پرگولی ماری گئی تھی۔ ڈلاس کے ایک شہری لی ہاروی اوسوالڈ پر فردِ جرم عائد کیا گیا کہ اُس نے گولی ماری لیکن کئی ماہرین کا ماننا ہےکہ گولی چلانے والا صرف اوسوالڈ ہی نہیں تھا جبکہ عوام کے ایک طبقےاور دوسرے غیر ملکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جان ایف کینیڈی کا قتل Inside Job تھی۔ اوسوالڈ کا معاملہ بھی مشکوک دکھائی دیتا ہے کہ جس دن اُسے عدالت میں سماعت کیلئے پیش کرنے کیلئے لایا جارہا تھا اُس دن اُسے جیک روبی نامی شخص نے گولی ماری دی جو ایک نائٹ کلب کا مالک تھا۔ گولی مارے جانے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ دونوں کے درمیان کوئی دشمنی تھی لیکن اس حوالے سےکوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکا اور روبی کی موت بھی پراسرار حالت میں ہوئی۔
٢) کیا بلوط جزیرے پر خزانہ دفن ہے ؟؟؟

دو صدیوں سے بھی زیادہ ایک کہانی مسلسل گردش کررہی ہے کہ کینڈا کے شہر نووا اسکاٹیا کے قریب واقع بلوط جزیرے جسے انگریزی میں oak islandکہا جاتا ہے ، پر ایک قزاقی کپتان ولیم کِڈ)1701 (1645-نے آکر بڑی تعداد میں زمین کے نیچے خزانہ دفن کیا تھا جسے واپس لینے کیلئے وہ آنہیں سکا۔ اس وقت سے لیکر اب تک اس خزانے کی کھوج میں کروڑوں ڈالر کی لاگت سے بےشمار مہمات اس جزیرے پر بھیجی گئیں لیکن بے سود ثابت ہوئیں۔ ایک ہسٹری چینل شو جس کا نام “Curse of oak island” ہے، میں اس ہی خزانے کی تلاش میں ایک جدید دور کی مہم کو فلمایا گیا تھا ہےجسے 2016 میں ریلیز کیا گیا تھا۔

مصر کی خوبصورت ترین اور سنگدل ملکہ کلیوپترا کا مقبرہ کہاں ہے ؟؟؟
قدیم مصنفین کی تحریروں کے مطابق کلیوپترا اور اُس کے محبوب مارک اینٹونی کو 30 قبل مسیح میں اُن کی موت کے بعد ایک ساتھ دفن کیا گیا تھا۔ ۔ مصنف پلوٹارک(1645-1701) عیسوی نے لکھا ہے کہ کلیوپترا کا مقبرہ ایک مصری دیوی آئسس کے ایک ہیکل کے قریب واقع ہے اور یہ ہیکل ایک “بلند اور خوبصورت” یادگار تھی جس میں سونے ، چاندی ، زمرد ، موتی ، آبنوس اور ہاتھی کے دانت سے بنے ہوئے خزانے موجود تھے ۔ دیوی آئسس کے ہیکل کی نشاندہی تاحال نہیں ہوپائی ہے اور مقبرے کا مقام اب تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ سن 2010 میں مصر کے سابق وزیر برائے باقیات سلف زاہی ہاوَس نے اسکندریہ کے قریب واقع ایک جگہ پر کھدائی کی تھی جس کو اب تپوسیرس میگنا کہا جاتا ہے ۔ کھدائی کے دوران کلیوپترا کے زمانے کے متعدد قدیم مقبرے دریافت ہوئے تھے لیکن کلیوپترا کا مقبرہ ان میں شامل نہیں تھا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ اگر کلیوپترا کا مقبرہ آج بھی کہیں واقع ہے تو وہ بھی ہزاروں سالوں کی گردش ایام کی وجہ سے ناقابل شناخت ہوگا۔

 

جیک دی ریپر کون تھا ؟؟؟
سن 1888، لندن میں ایک گمنام قاتل گزرا ہے جس نے کم از کم پانچ خواتین کو بے رحمی سے قتل کیا اور دل دہلادینے والی بات یہ ہے کہ وہ خواتین کو قتل کرنے کے بعد اُن کا مثلہ بنایا کرتا تھا۔ جیک جب بھی کسی خاتون کو قتل کرتا تو وہ اُس کی تلاش میں سرگرداں پولیس افسران کو لازمی طور پر ایک طنزیہ خط لکھتا جس میں وہ اپنا نام جیک دی ریپر بتاتا، یہیں سے اُس کا نام جیک دی ریپر پڑ گیا لیکن پورے ملک کے مختلف سیکورٹی و پولیس محکموں کی سالوں تلاش و کوششوں کی بعد بھی اُس قاتل کی پتہ نہ چل سکا ۔ درجنوں افراد کو ممکنہ ملزمان کے طور پر سامنے لایا گیا لیکن ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بنا پر انہیں چھوڑ دیا گیا۔ چند عرصہ قبل ایک کتاب منظر عام پر آئی تھی جس میں لیزی ولیمز نامی ایک عورت کو 18ویں صدی کی جیک دی ریپر ظاہر کیا گیا تھا لیکن کئی ماہرین کی جانب سے شکوک و شبہات کی بنا پر لیزی کا نام فہرست سے نکال دیا گیا اور جیک دی ریپر کی شناخت تاحال ایک معمہ ہے۔

تابوتِ سکینہ کا کیا ہوا ؟؟؟

587 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اپنی فوج کو لے کر یروشلم پر چڑھائی کردی اور اس شہر کی اینٹھ سے اینٹھ بجادی۔یہودیوں کو قتل کیا اور اُن کا پہلا ہیکل جہاں وہ خدا کی عبادت کرتے تھے تباہ کردیا۔ اس ہیکل میں تابوتِ سکینہ موجود تھا جسے انگریزی میں Ark Of The Covenantکہا جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کا صندوق تھا جس میں کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ سلام پر نازل ہونے والے 10احکامات کی تختیاں، حضرت موسیٰ کا اعصا، حضرت سلیمان کی انگوٹھی اور دیگر انبیا کرام کے تبرکات موجود تھے۔ قدیم ذرائع کے مطابق ہوسکتا ہے بخت نصر صندوق یا تو اپنے ساتھ عراق لے گیا ہو یا یروشلم کی تباہی کے ساتھ ہی وہ بھی تباہ ہوگیا ہو لیکن پھر بھی اس حوالے کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکی کہ اُس صندوق کا آخر کیا بنا؟۔ صندوق سے متعلق متعدد داستانیں اور قصے موجود ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ صندوق بالآخر ایتھوپیا پہنچ گیا تھا جہاں وہ آج بھی موجود ہے۔ ایک اور کہانی میں کہا گیا ہے کہ تابوت کو خدا نے مخفی رکھا ہوا ہے اور یہ اُس وقت ظاہر ہوگا جب مسیحا کا ظہور ہوگا۔

کیا اٹلانٹس نام کی سر زمین موجود تھی ؟؟؟
400 قبل مسیح میں یونانی فلاسفر افلاطون نے اپنی تحریر میں بحر اوقیانوس میں اٹلانٹس نامی ایک سرزمین کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ پرانے وقتوں میں اٹلانٹس نے یورپ اور افریقہ کا بیشتر حصہ فتح کرلیا تھا مگر بعد میں ایتھینز نے اٹلانٹس پر حملہ کیا اور اس سرزمین کو تہہ تیغ کرڈالا اور زمانے کی گردش ایام سے پوری سرزمین زیر سمندرآگئی۔ دوسرا قیاس یہ ہےکہ اٹلانٹس میں شدید زلزلہ آیا تھا اور ایک آتش فشاں پہاڑ اس شدت سے پھٹا تھا اُس سے پوری سرزمین زیر آب آگئی تھی۔ اٹلانٹس سے متعلق کئی رائے دی جاچکی ہیں اور اس کو افسانہ بھی قرار دیا جاچکا ہے لیکن کئی ماہرین کا اب بھی ماننا ہے کہ اٹلانٹس کا وجود بحر قیانوس کی تہہ میں کہیں نہ کہیں موجود ہے جسے اگر دریافت کرلیا گیا تو جغرافیائی و سیاسی تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔
معلق باغات کہاں تھے ؟؟؟
قدیم مصنفین اپنی تحریروں میں بابُل( آج کے عراق) میں تعمیر کردہ معلق باغات جسے انگریزی میں Hanging Gardens کا نام دیا گیا ہے، کا ذکر تسلسل کے ساتھ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ باغیچے کب تعمیر ہوئے تھے ، لیکن کچھ قدیم مصنفین ان معلق باغات سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے اسے “دنیا کا حیرت انگیز عجوبہ” قرار دیا تھا۔ 250 قبل مسیح کے قریب مصنف بازنطیم کیفیلو نے باغات کی حیرت انگیز ساخت کے حوالے سے لکھا کہ باغات میں “پودوں کی کاشت زمینی سطح سے بلندی پر کی گئی تھی اور درختوں کی جڑیں اوپری منزل سے نچلی منزل میں سرایت کررہی تھیں مگر زمین کو چھوئے بغیر۔” اب تک آثار قدیمہ کے ماہرین جنہوں نے بابُل کی کھدائی کی ہے وہ اس باغ کی باقیات نہیں ڈھونڈ سکے ہیں جو قدیم مصنفین کی تحریروں میں دی گئی تفاصیل پر پورا اترتے ہوں اور یہی وجہ ہے کہ کئی ماہرین اب سوال کررہے ہیں کہ کیا معلق باغات واقعی موجود تھے؟۔ سن 2013 میں ، آکسفورڈ یونیورسٹی کی محقق اسٹیفنی ڈیلی نے ایک کتاب میں تجویز پیش کی تھی کہ باغات واقعتاً اسیریَن شہر نینویہ میں واقع تھے۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران ، بابل اور نینوی خطوں کو جنگوں اور لوٹ مار سے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ معلق باغات کا راز بھی راز ہی رہے گا۔