آپ کے مسائل اور ان کا حل

321

دعوت افطار کن کے لیے؟
سوال: یہ بات واضح ہے کہ رمضان میں کسی روزے دار کو افطار کرانا بڑے اجر وثواب کا کام ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس روزے دار سے مراد کون ہے؟ مسافر یا وہ جو خود افطار کرنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی اور جو مالی لحاظ سے خوش حال ہو؟ ہم یہاں مسلم کمیونٹی کے افراد خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ محض تفاخر اور ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے افطار پارٹیاں کرتے ہیں۔ کیا اس سے بھی اجر وثواب حاصل ہوتا ہے؟
جواب: روزے دار کو روزہ افطار کرانے والے کو روزے دار کے برابر اجر ملے گا اور اس سے روزے دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہ اجر وثواب بلاتفریق ہر روزے دار کو افطار کرانے پر ملتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ روزے دار نادار ومحتاج ہو، اس لیے کہ یہ بطور صدقہ وخیرات نہیں بلکہ بطور ہدیہ ہے اور ہدیے کے لیے یہ شرط نہیں کہ جس کو ہدیہ اور تحفہ دیا جا رہا ہے وہ فقیر اور ضرورت مند ہو، بلکہ تحفہ خوش حال اور نادار دونوں کو دیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف وہ دعوتیں جو نمود ونمائش اور تفاخر کے لیے کی جائیں، درست نہیں۔ ایسی دعوتیں کرنے والوں کو اجر وثواب نہیں ملتا، وہ اپنے آپ کو بڑے اجر سے محروم کردیتے ہیں۔ جس کو ایسی پارٹیوں کی دعوت دی جائے تو اسے ان میں شریک نہیں ہونا چاہیے، اور معذرت کرتے ہوئے حکیمانہ انداز سے مدعو کرنے والے کو سمجھانا چاہیے، اور کسی مخصوص شخص کو ٹارگٹ بنانے کے بجائے عمومی انداز سے بات کرتے ہوئے شریعت کا حکم واضح کرنا چاہیے۔ نرمی اور حکمت سے کی گئی بات کا بہرحال اثر ہوکر رہتا ہے۔ (ڈاکٹر عبدالحئی ابڑو)
٭…٭…٭
قضا روزوں کی ادائیگی
سوال: رمضان کے کچھ روزے کسی شرعی عذر کی بنا پر قضا ہوگئے۔ کیا شوال کے چھے مسنون روزے رکھنے سے پہلے رمضان کے قضا روزوں کی ادائیگی کی جائے یا قضا روزوں کو مؤخر کر کے پہلے شوال کے روزے رکھ لیے جائیں؟ اگر کوئی شخص یہ نیت کرے کہ شوال میں قضا روزے ادا کر رہا ہوں اور ماہِ شوال کے مسنون روزوں کا ثواب بھی مل جائے گا۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ یہ خیال رہے کہ عبادات میں نیت بہت ضروری ہے، اس لیے فرض عبادت کو نفل عبادت سے ملایا نہیں جاسکتا، مثلاً دو رکعت فرض نماز میں فرض ہی کی نیت کی جائے گی، نفل کی نہیں۔ کیا روزے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے؟
2۔اگر کسی شرعی عذر کے باعث کسی خاتون کے ذمے کئی ماہ کے روزے ہوں اور ان کی ادائیگی کے لیے کوشاں بھی ہو، لیکن وہ شوال اور ذوالحجہ کے نفلی روزوںکا ثواب بھی لینا چاہے تو اس کے لیے کیا حکم ہوگا؟ رمضان کے قضا روزے اگر تسلسل کے ساتھ رکھنا مشکل ہو، اور کوئی خاتون یہ معمول بنالے کہ وہ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھ کر اپنے ذمے فرض روزوں کو ادا کرے گی، تو کیا ان دو دنوں کی نسبت سے اس کو سنت پر عمل کا ثواب بھی ملے گا؟
جواب: آپ کے سوالات کے مختصر جوابات حسب ذیل ہیں:
1۔ شرعی عذر کی بنا پر ماہِ رمضان کے جو روزے چھوٹ گئے ہوں، ان کی فوری قضا لازم نہیں، اگرچہ مستحسن یہی ہے کہ جلد رکھ کر اس فرض سے سبکدوشی حاصل کرلی جائے، کیونکہ انسان کو زندگی کے اگلے لمحے کا کچھ پتا نہیں۔ پھر یہ کہ نیکیوں کے حصول میں پہل کرنے اور عجلت سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے یہ روزے فوری نہ رکھے جاسکیں تو تاخیر سے گناہ لازم نہیں آتا۔ اس لیے قضا روزے رکھنے سے پہلے دیگر نفلی روزے (جیسے شوال کے چھے روزے وغیرہ) بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ صحیحین (بخاری و مسلم) میں سیدہ عائشہؓ کا قول ہے: ’’میرے ذمے رمضان کے قضا روزے ہوتے تھے اور میں وہ شعبان ہی میں رکھ پاتی تھی‘‘۔ حافظ ابن حجر اس کی شرح میں کہتے ہیں: ’’اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر یا اس کے بغیر بھی آئندہ رمضان تک روزوں کی قضا کو مؤخر کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (فتح الباری)
2۔ اصل تو یہ ہے کہ عبادات کو الگ الگ ادا کیا جائے، لیکن اگر ایک عمل سے دو طرح کی عبادات کی ادائیگی کی بیک وقت نیت کی جائے، تو اس بارے میں فقہا کی رائے مختلف ہے۔ حنفی فقہا کے ہاں ایک ہی عمل میں فرض اور نفل عبادت کو جمع نہیں کیا جاسکتا، البتہ دو نفل عبادات کی نیت ایک عمل میں کی جاسکتی ہے، جیسے اگر کسی نے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد اور ساتھ ہی فجر کی سنت کی نیت سے پڑھا ہے تو دونوں ادا ہوجائیں گی۔ شافعی فقہا کے نزدیک فرض نماز اور تحیۃ المسجد ایک ہی نیت سے ایک ہی عمل میں ادا کی جاسکتی ہیں۔ اس کی تفصیل میں وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عبادت مقصود بالذات نہ ہو تو اسے دوسری عبادت کے ضمن میں ادا کیا اور دونوں کو ایک ہی عمل میں جمع کیا جاسکتا ہے، جیسے مذکورہ مثال میں تحیۃ المسجد مقصود بالذات نہیں، بلکہ اصل مقصد اس وقت اور مقام کو نماز کے عمل سے معمور کرنا ہے۔ اس لیے وہ دوسری مقصود بالذات عبادت کے ضمن میں ادا کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر دونوں عبادتیں اور اعمال مقصود بالذات قسم کے ہوں تو انھیں ایک ہی عمل میں جمع نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے نزدیک، اگر ان اقوال کو سامنے رکھا جائے تو پیر اور جمعرات، نیز شوال کے چھے روزوں کی بھی یہی صورت بنتی ہے کہ وہ (بقول شافعیہ) مقصود بالذات کی قبیل سے نہیں بلکہ مقصد ان ایام اور اوقات کو روزے سے آباد کرنا ہے۔ اس لیے اگر قضا روزے انھی دنوں میں رکھے جائیں تو اْمید ہے کہ قضا روزوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ضمنی طور پر پیر اور جمعرات اور شوال کے روزوں کی فضیلت بھی ان شاء اللہ حاصل ہوجائے گی۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی شانِ کریمی و فیاضی سے یہی اْمید رکھنی چاہیے۔ وہ اپنے بندے کے ساتھ اس کی نیت و ارادے، تڑپ اور لگن کے مطابق برتائو کرتا ہے۔ (مولانا عبدالحی ابڑو)
(بحوالہ، عالمی ترجمان القرآن، لاہور)