روزہ اور اعتکاف

415

محمد یونس جنجوعہ

اللہ تعالیٰ رحمٰن اور رحیم ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ جوکوئی ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس گنا اجر ملے گا اور جو کوئی ایک گناہ کرے گا تو اس گناہ ایک ہی شمار ہوگا۔ قرآن مجید میں یہ بھی ہے کہ نیکیاں برائیوںکو ختم کردیتی ہیں، بلکہ جو شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو اس کی برائیاں نیکیوں میں بدل دی جاتی ہیں۔ پھر بعض دنوں کو بعض دنوں پر فضیلت دی گئی ہے جیسے جمعے کا دن۔ بعض اوقات کو دوسرے اوقات پر فضیلت ہے جیسے رات کو تیسرا پہر، کہ اس وقت اللہ کی رحمت پکار پکار کر کہتی ہے کہ ہے کوئی مانگنے وال اکہ میں اس کو دوں۔ رمضان قمری سال کا نواں مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک کو باقی مہینوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ رمضان قرآن پاک کے نزول کی سالگرہ ہے۔ اس مہینے ہر عمل کا ثواب ستر گنا ہوجاتا ہے۔ نفل کا ثواب فرض کے برابرکردیا جاتا ہے۔ اس ماہ کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اس ماہ مبارک کا پہلا عشرہ رحمت کا ہوتا ہے۔ دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسراعشرہ دوزخ کی آگ سے رہائی کا ہوتا ہے۔ اس مبارک مہینے کے آخری عشرے میں ایک رات لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوںسے بہتر ہے۔ رسول اللہؐ کے فرمان کے مطابق وہ رمضان کی راتوں میں سے ایک ہے یعنی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں رات، اس رات کا تعین نہیں کیا گیا تاکہ مسلمان ان راتوں میں عبادت میں مصروف رہیں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی رحمت حاصل کرسکیں۔ لیلۃ القدر اور رمضان کے آخری عشرے سے بھرپور مستفید ہونے کے لیے آخری دس دنوں کا اعتکاف مقرر کیا گیا ہے۔ معتکف بیسواں روزہ مسجد میں اعتکاف کی حالت میں افطار کرتا ہے۔ اور پھر عیدالفطر کا چاند طلوع ہونے تک مسجد ہی میں قیام کرتا ہے۔ سحری کا کھانا اور افطاری مسجد ہی میں ہوتی ہے۔ سارا دن اور رات کا اکثر حصہ وہ ذکر واذکار اور نوافل میں گزارتا ہے۔ پیشاب پاخانے کی حاجت کے وقت باہر نکل سکتا ہے یا پھر وضوکے لیے۔ معتکف بڑا خوش قسمت انسان ہے کہ اس کے نامۂ اعمال میں یہ دس دن گناہوں سے پاک اور نیکیوں سے بھرپور ہوتے ہیں۔ معتکف کسی بیمار کی عیادت یا نماز جنازہ میں شرکت کے لیے بھی مسجد سے باہر نہیں جاسکتا۔ اسی طرح نیکی کے وہ کام جو بیرون مسجدکیے جاسکتے ہیں وہ نہیں کرسکتا۔ مگر اللہ کی رحمت کی وسعت دیکھیے کہ معتکف کو یہ کام کیے بغیر بھی ان کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ رسول اللہؐ ہر رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال سفر کی مصروفیت تھی اور آپؐ اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال رمضان کے آخری دو عشروں کا اعتکاف کیا۔ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی ازواج مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ جس طرح عورت کی نماز گھر میں زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے، اسی طرح عورت کا اعتکاف بھی گھر میںہوتا ہے، جہاں وہ اپنے بیٹھنے کے لیے جگہ مقرر کرلیتی ہے۔
اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے۔ اور روزہ خود بہت بڑے اجر وثواب کا کام ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے اور جس نے رمضان کی راتوں میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے بھی سابقہ گناہ بخش دیے گئے اور جس نے لیلۃ القدر میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے بھی سابقہ گناہ بخش دیے گئے۔ (صحیحین) ایمان یقین کوکہتے ہیں کہ دل میں کسی طرح کاشک و تذبذب نہ ہو بلکہ کیفیت اطمینا ن اور سکون کی ہو، عقیدہ پختہ ہو، ایمانیات کے تمام شعبے اس کے سامنے مستحضر ہوں۔ احتساب کا معنی ہے نگرانی اور محاسبہ کا احساس۔ یعنی روزے کی حالت میں انسان اپنے اعمال پر کڑی نگاہ رکھے کہ کوئی کام اللہ کی رضا کے خلاف نہ ہونے پائے اور خلوص کا یہ عالم ہوکہ اپنے عمل پر ثواب کی پوری امید ہو۔ روزہ تو دن کی ہر طرح کی معصیت سے بچ کر غروب آفتا ب تک کھانے پینے سے پرہیز کرکے اور نفسانی خواہشات پر قابو پاکر گزارنے کا نام ہے۔ جبکہ قیام کا مطلب رات کو نماز تراویح میں کھڑے ہوکر قرآن کا سننا اور سنانا ہے۔ اسی طرح لیلۃ القدر کا قیام بھی یہ ہے کہ رات رب کے حضور میں ذکر واذکار، تلاوت قرآن اور نوافل کی ادائیگی میں بسرکی جائے۔ روزے کی حالت میں جب انسان کاروبار زندگی میں مصروف ہوتا ہے تو چھوٹی موٹی بے احتیاطی کا امکان رہتا ہے۔ مگر حالت اعتکاف میں تو انسان ہر طرح کی دنیاوی مشغولیت سے یکسر فارغ اور عبادات کے لیے ہمہ وقت مستعد ہوتا ہے۔ پس اعتکاف کرنے والے کے کیا کہنے کہ اسے روزے کا، تراویح کا، ذکر و اذکار ونوافل کا اور ان کاموں کا ثواب بھی ملتا ہے جو وہ مسجد میں موجود ہونے کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتا۔ بس شرط یہ ہے کہ روزہ پورے آداب کے ساتھ اور اعتکاف پورے خلوص کے ساتھ ہو۔ ایسا روزہ اور اعتکاف جہاں سابقہ گناہوںکی معافی کا سبب ہے، وہاں اس کے اخلاق کو بلند، کردارکو مضبوط بناتا اور نیکیوں پر آمادگی اور گناہوں سے نفرت پیدا کرتا ہے۔ روزے اور اعتکاف کا یہی مقصد ہے جسے تقویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اگر روزے کا مقصد پیش نظر نہ ہواور روزے دار آنکھوں، کانوں، ہاتھوں اور زبان کا بے محابہ اور غیرمحتاط استعمال کرتا رہے تو اس کا روزہ محض فاقہ ہے اور رات کا جاگنا محض رت جگا ہے۔ اسی طرح اگر معتکف اعتکاف کی حالت میں بیٹھ کر دنیاوی گفتگو میں مشغول رہے اور جھوٹ اور غیبت سے پرہیز نہ کرے تو اس کا اعتکاف بھی نتیجہ خیزنہ ہوگا۔ یہ کتنی بدنصیبی ہے کہ روزہ رکھ کر بھوک وپیاس بھی برداشت کی اور حاصل کچھ نہ ہوا اور اعتکاف کے دس دن مسجد میں گزارنے کے بعد بھی معصیت سے پرہیز نہ کرسکا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین